بدھ، 24 دسمبر، 2014

خاک زادے کا عشق

خیال سی بے مثال لڑکی
آپ ہی وہ اپنی مثال لڑکی
ان دیکھا سا انجانا سا احساس اس کا
پاکیزگی کا پیراہن لباس اس کا
گنگا بھی اس کی سوگند کھائے
پاروتی اس کے آنچل سے بدن چھپائے
سوہنی کا حسن ماند اس کے سامنے
شیریں کا کوہکن غلام اس کے سامنے
ہمالہ کماری، وہ اولمپس کی شہزادی
برہما کی بیٹی، وہ زیوس زادی
حسن کا استعارہ، وہ کشمیر کی وادی
تمکنت اس کی بیاں کیسے ہو
اوڈیسیس، اتھینا کا نگہباں کیسے ہو
عشق، حسن کا مہماں کیسے ہو
میں ارضی، میں فانی، میں خاک زادہ
کیسے کروں اس سے چاہت کا ارادہ

پیر، 22 دسمبر، 2014

طفلِ آوارہ ہوں سفر میں نہیں رہتا

دل میں رہتا ہوں نظر میں نہیں رہتا
طفلِ آوارہ ہوں سفر میں نہیں رہتا
برقی خط نہیں، پھول بھیجو مجھے
حقیقت ہوں، محض میسنجر میں نہیں رہتا
سرشام بامِ فلک سے جھانکتا چاند
کتنا خودسر ہے گھر میں نہیں رہتا
کیسے پائے گا لطفِ وصل کی معراج
وہ بدنصیب جو ہجر میں نہیں رہتا
کیوں ملتا ہے پیار کوڑے دان میں
گجروں کے باسی زیور میں نہیں رہتا؟

منگل، 16 دسمبر، 2014

شہیدانِ پشاور کا پیغام

بابا! اداس کیوں ہو؟
ماما سے کیوں جھگڑ رہے ہو؟
تمہاری آنکھوں کی چمک کہاں ہے؟
تمہاری گردن کیوں جھکی ہوئی ہے؟
بابا! آج سولہ دسمبر ہے نا؟
تم اپنی اداسی جھٹک ڈالو
اپنی آنکھوں کی چمک ُبلا لو
تمہارا بیٹا جوان ہو گا
اس دیس کی نئی پہچان ہو گا
تم سے یہ وعدہ ہے بابا
میں تاریخ بدل دوں گا
انہونی کو ہونی کر دوں گا
تمہیں اپنے سپوت پہ ناز ہو گا
ظلمت کا یہ سلسہ نہ دراز ہو گا
بابا! شام کو تمہیں بتلاؤں گا
کہ اس دنیا میں کیا کر دکھلاؤں گا
ـ
ـ
ـ
ـ
دیکھ لو بابا!
سولہ دسمبر کی ظلمت پہ میرے لہو کی سرخی غالب ہے
یہ سرخی سیاہی پہ چھا گئی ہے
اک روشن صبح کا پتہ دے رہی ہے
ـ

اتوار، 14 دسمبر، 2014

انجام

وقت کی دہلیز پر قرنوں کا مسافر
دستک دینے سے گریزپا ہے یہ سوچ کر
سراسیمہ ہے، حیراں ہے
اور اس فکر میں سرگرداں ہے
وقت کی چوکھٹ کے در وا ہونے سے
اس کے نصیب میں کونسا لحظہ آئے گا
اس کی مسافت تمام ہو گی
یا پھر سے اذنِ سفر پائے گا
(وقت کی دہلیز سے آج تک
بھلا کوئی مطمئن لوٹا ہے؟
وقت کا گھر تو خود اک سفر ہے
وقت کی قید سے بھلا کس کو مفر ہے)
وقت کی کتاب میں ثبات تو موت ہے
سفر کا تسلسل ہی جیون کی جوت ہے
لحظوں کا، سالوں کا، صدیوں کا، ہزاریوں کا
سفر آخر تمام ہوتا ہے
وقت کی دہلیز پہ کھڑے ہر مسافر کا
ایک ہی انجام ہوتا ہے ـ

ہفتہ، 29 نومبر، 2014

ن کے بغیر (ن)یا پاکستا(ن)

انسان ابتدائے تاریخ سے ہی ایک ایسے معاشرے کے قیام کے خواب دیکھتا رہا ہے جسے انگریزی کے ایک لفظ UTOPIA میں بیان کیا جا سکتا ہے ـ لیکن بدقسمتی سے آج تک انسانیت کو ایسی قیادت میسر نہ آ سکی جو ایسے مکمل معاشرے کے قیام کو ممکن بنا سکے، اور اس قیادت کے ساتھ ساتھ ایسے کارکن بھی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتے جو قیادت کے رنگ میں مکمل رنگے گئے ہوں بلکہ ان کا رنگ قیادت سے بھی زیادہ گہرا ہو ـ
قیامِ پاکستان، قدرت کا ایک معجزہ ہی تھا اور آج یہ کہنے میں، میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ تاریخ کہ اس موقع پر جب قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد پورے ہونے جا رہے ہیں، میں نہ صرف اس کا گواہ ہوں بلکہ یہ تحریر لکھ کر اس میں اپنا حصہ بھی ڈال رہا ہوں اور شاید اپنے سابقہ جرائم کا کفارہ بھی ادا کر رہا ہوں ـ تیس نومبر، دو ہزار چودہ کو جو نیا پاکستان بننے جا رہا ہے اس کی قیادت اس عظیم کپتان کے ہاتھ میں ہے جس نے جو چاہا پا لیا، کوئی اس کے قدم نہ روک سکا ـ کوئی اس کے رستے کی دیوار نہ بن سکا اور نہ ہی کوئی مجبوری اس کے آڑے آئی ـ
کپتان کے عزم کے مطابق نیا پاکستان اتنا نیا ہو گا کہ کہ نہ تو علامہ اقبال نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور نہ قائداعظم محمد علی جناح کے وہم و گمان میں تھا ـ کیونکہ ان دو بزرگوں کا جو پاکستان تھا وہ تو اکہتر میں یحیٰی، مجیب اور بھٹو کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا تھا، اس لیے کپتان کے مطابق ایک نئے، چمکتے دمکتے، لشکیلے پاکستان کی بنیاد رکھنی ضروری ہے، جو UTOPIA کی تمام تر شرائط پوری کرتا ہے ـ
اب بہت سے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ ایسی قیادت کہاں سے آئے گی جو یوٹوپیا بنا سکے تو سب کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کپتان کی صورت میں انسانیت کو وہ قیادت میسر آ چکی ہے ـ باقی اگر کوئی کمی بیشی رہ بھی جائے تو شاہ محمود قریشی، عبدالعلیم خان، اعظم سواتی، خورشید محمود قصوری، اسد عمر اور شیریں مزاری پوری کر سکتے ہیں ـ کبھی تاریخ نے کسی راہنما کے میمنہ و میسرہ پہ ایسے سالار دیکھے ہیں؟ یوں تو کپتان ایک مکمل اور جامع شخصیت ہیں لیکن اگر کبھی کسی سے مشورہ لینا پڑ ہی جائے تو شیخ رشید احمد صاحب، مبشر لقمان صاحب اور حسن نثار صاحب جیسے مفکرین و فلسفی موجود ہیں ـ
مجھے پورا یقین ہے کہ تیس نومبر دوہزار چودہ کی رات کو معاہدے کے مطابق بارہ بجے سٹیج ختم کرنے کی نوبت نہیں آئے گی کیونکہ اس وقت تک نیا پاکستان بن چکا ہو گا، انقلاب فرانس و روس کی یاد تازہ ہو چکی ہو گی ـ گردنیں کٹ چکی ہوں گی اور ملک دشمن راہ فرار اختیار کر رہے ہوں گے ـ عوام کو مکمل سیکیورٹی میسر آ چکی ہو گی، ہر دروازے پر ایک ایک طالب حفاظت کے لیے کھڑا ہو گا ـ جو کل تک جان کے دشمن تھے، کل سے جان کے محافظ ہوں گے، یہ ہوتی ہے اصل تبدیلی ـ جائیداد کے تمام مسائل عبدالعلیم خان صاحب اپنی نگرانی میں حل کروا رہے ہوں گے ـ ملا فضل اللہ اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ایک ہی گھاٹ پر پانی پی رہے ہوں گے، بشرطیکہ علامہ قادری صاحب کو دوبارہ انقلاب نہ آ گیا ہو ـ
قصہ مختصر، تبدیلی مکمل طور پر آ چکی ہو گی ـ کارکن جو ابھی تک زیادہ تر فیس بک اور ٹویٹر پر دوسروں والدہ و ہمشیرہ کو ایک کرنے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں، زمین پر مخالفین کی طبیعت درست فرما رہے ہوں گے ـ امریکہ پاکستان سے قرضہ مانگ رہا ہو گا، روس پاکستان کو گرم پانی تک راستہ دینے پر تیار ہو گا، افغانستان اپنی بندرگاہیں پاکستان کے سپرد کر چکا ہو گا ـ بھارت، کشمیر کا ذکر ہی کیا جونا گڑھ، مناور اور حیدر آباد دکن پاکستان کے حوالے کر چکا ہو گا اور اس کے علاوہ پاکستان کے کہنے پر تبت کو چین کا حصہ بھی تسلیم کر چکا ہو گا ـ
لیکن، یہ سب تبدیلیاں تو ثانوی ہیں، اصل تبدیلی یہ ہے کہ اردو زبان ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو چکی ہو گی ـ کیونکہ کپتان کو ن سخت ناپسند ہے اس لیے کم از کم فوری طور پر اردو سے حرف ن، حرفِ غلط کی طرح مٹ چکا ہو گا ـ کپتان فوری طور پر خود کو کپتا عمرا خا کہلوائیں گے، شاہ محمود قریشی ملتا کی تقدیر تبدیل کر چکے ہوں گے ـ شیریں مزاری- شیری مزاری، نواز شریف - واز شریف، چوہدری نثار - چوہدری ثار اور کارکن کارک بن چکے ہوں گے، اور تو اور ن اس قدر مٹ جائے گا کہ نیا پاکستان بھی یا پاکستا کہلائے گا، آخر اور کچھ نہیں تو نام کی ہی تبدیلی یوٹوپیا بنانے کے لیے کافی ہے ـ

جمعہ، 17 اکتوبر، 2014

داعش، طالبان اور خطے میں خونریز تصادم کے امکانات

داعش، مشرقِ وسطٰی میں ابھرنے والی ایک نئی انتہا پسند تنظیم ہے جس نے پہلے سے موجود شدت پسند تنظیموں کو بھی کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے ـ اس تنظیم کی شدت پسندی کا عالم یہ ہے کہ القاعدہ جیسی تنظیم نے بھی اسے شدت پسند قرار دیا ہے ـ اس تنظیم نے اپنے خیالات، افکار اور عقائد کے مطابق ایک اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا ہے اور سرِدست اس میں عراق اور شام کو شامل کیا ہے، لیکن ان کے مستقبل کے عزائم میں اس ریاست میں تقریباً تمام مسلم ممالک کو شامل کرنا ہے ـ
مشرقِ وسطٰی کے حالات اور وہاں اس تنظیم کے انجام سے قطع نظر اس تحریر میں اس تنظیم کی وجہ سے ہمارے خطے یعنی پاکستان، افغانستان، ایران اور بھارت پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی ـ تاریخ اور حالاتِ حاضرہ سے دلچسپی رکھنے والے افراد اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس خطے میں پہلے سے ہی مختلف مذاہب اور ان کے ذیلی فرقوں سے تعلق رکھنے والی شدت پسند تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں ـ جن میں القاعدہ، طالبان اور تحریکِ طالبان سرِفہرست ہیں ـ اس تحریر میں انہی کا احاطہ کیا جائے گا ـ
قارئین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ القاعدہ اور طالبان اس خطے خصوصاً افغانستان میں تقریباً دو دہائیوں سے مصروفِ عمل ہیں اور کچھ عرصہ افغانستان میں حکومت بھی کر چکے ہیں ـ جہاں انہوں نے اماراتِ اسلامیہ افغانستان کے نام سے اپنی حکومت قائم کی تھی ـ جس کی سربراہی ملا محمد عمر کے پاس تھی جنہیں امیر المومنین یا خلیفہء وقت کا درجہ دے کر ان کی بیعت بھی کی گئی تھی ـ بعد میں پاکستان میں قائم ہونے والی تحریکِ طالبان پاکستان بھی ملا عمر کی امارت کو تسلیم کرنے کا دعوٰی کرتی تھی ـ نو گیارہ کے واقعات کے بعد، افغانستان پر امریکی حملے کی وجہ سے افغانستان پر طالبان کی امارت ختم ہو گئی اور اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد آپریشن میں مجوزہ ہلاکت کے بعد القاعدہ بھی نسبتاً کمزور ہو گئی مگر انتہا پسند گوریلا تنظیموں کے طور پر ان کی قوت سے انکار ممکن نہیں ـ
ادھر مشرقِ وسطٰی میں داعش نے بھی جس اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا ہے وہ بھی دراصل ایک امارت ہے جس کے امیر یا خلیفہ ابوبکر البغدادی ہیں ـ مشرقِ وسطٰی میں قوت پکڑنے کے ساتھ ساتھ اس خطے میں بھی داعش کی موجودگی کی اطلاعات ہیں ـ یہ وہ صورتحال ہے جو کہ انتہائی حد تک تشویشناک ہے اور خونریزی کے امکانات کو شدت سے جنم دیتی ہے ـ
دونوں جماعتیں چونکہ اسلامی ریاست اور اسلامی نظامِ حکومت یعنی خلافت کی دعویدار ہیں لہذٰا دونوں کے امیر خلافت کا حقدار خود کو ہی سمجھتے ہیں ـ اسلامی نظامِ ریاست بلکہ دنیا کے کسی بھی نظامِ حکومت میں ایک وقت میں دو سربراہ یا امیر نہیں ہو سکتے ـ اسلامی نظام میں یہاں تک حکم ہے کہ اگر ایک امیر کی موجودگی میں دوسرا خروج کرے تو اسے قتل کر دو ـ
اب اس خطے میں ملا عمر کی امارت تو پہلے سے قائم ہے تو جو لوگ ابوبکر البغدادی کی بیعت کریں گے وہ ملا عمر کیخلاف کے خروج سمجھا جائے گا اور طالبان ان کا قتل اپنے لیے جائز سمجھیں گے ـ بالکل اسی طرح بغدادی کی بیعت کرنے والوں کے نزدیک ملا عمر کی امارت باطل ہو گی اور وہ ملا عمر اور ان کے پیروکاروں کا قتل جائز سمجھیں گے ـ چونکہ دونوں تنظیمیں کوئی باقاعدہ فوج نہیں رکھتیں اور اپنی اپنی ریاستوں سے چھپ کر گوریلا جنگ لڑتی ہیں اس لیے ان کے درمیان جنگ باقاعدہ جنگ نہیں ہو گی بلکہ یہ ہمارے گھروں، گلیوں اور محلوں میں لڑی جائے گی ـ محض شک کی بناء پر لوگ قتل ہوں گے اور اس جنگ کا دائرہ تیزی سے پھیلتا چلا جانے کا امکان ہے ـ
اس صورتحال میں ایران کا ردعمل بھی شدید ہو گا کیونکہ فرقوں میں تفریق کی وجہ سے ایران ان دونوں جماعتوں کا مشترکہ دشمن ہے لہذٰا وہ خود پر حملے سے پہلے ان جماعتوں کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا اور نتیجے میں شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والی آبادی جو پہلے بھی شدت پسند تنظیموں کے نشانے پر ہے اس جنگ میں شامل ہو جائے گی اور خونریزی مزید بڑھے گی ـ
بھارت بھی اس صورتحال سے لاتعلق نہیں رہ سکے گا اور وہ بھی کسی نہ کسی طرح اس جنگ میں شامل ہو گا کیونکہ وہاں بھی یہ لڑائی کسی نہ کسی صورت پھیلے گی اور وہاں یہ فرقہ وارانہ لڑائی کی حد سے نکل کر مذہبی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے ـ
اس خطے پر قبضے اور کنٹرول کی خواہش تمام مسلم انتہا پسند تنظیموں کو ہے جو کہ کچھ روایات کے مطابق خطہء خراسان ہے اور اسلام کو اسی خطے میں قائم اسلامی حکومت کی بدولت دوبارہ عروج حاصل ہو گا ـ بعض روایات و عقائد کے مطابق یہی خطہ امام مہدی کی فوج کا بھی ہے ـ ان روایات و عقائد کی تفصیل و تنقیدی جائزے پر جانے کی بجائے اس بات پر تحریر کا اختتام ہے کہ اگر اس خطے کی حکومتوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور مل کر اس فتنے کو جڑ سے نہ اکھاڑہ تو یہاں ایک خانہ جنگی ناگزیر ہے جس میں ہزاروں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا اندیشہ ہے ـ

جمعہ، 5 ستمبر، 2014

مجبوری

تیرے وجود کی نغمگی میں
اتنی روانی ہے کہ
ُسر اور تال کے زیر و بم
محسوس تو کیے جا سکتے ہیں
بیاں نہیں ہوتے

پیر، 18 اگست، 2014

سول نافرمانی کی تحریک کا اصل قصور وار

کل عمران خان کی طرف سے ہونے والے ان کی زندگی کے سب اہم، سول نافرمانی کے اعلان کے بعد ملک کے سنجیدہ سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، صحافتی اور عوامی حلقں میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ آخر ایسا کونسا مشیر ہے جس نے عمران خان کی سیاسی زندگی کا تقریباً خاتمہ کر دیا ہے ـ میرے خیال میں اب وہ وقت آ گیا ہے کہ میں سب کے سامنے یہ اقرار کر لوں کہ اس سب کے پیچھے میرا قصور ہے ـ میں آپ کو اصل کہانی سنا ہی دیتا ہوں اور یہ ایک سبق آموز قصہ ہے کہ کبھی بھی نادان دوست کو بھی اچھا مشورہ نہ دو ـ
میرا ایک بہت اچھا دوست تحریکِ انصاف میں ہے ـ نوجوان بھی ہے اور پرجوش بھی، اس کی سب سے بہترین خوبی جو مجھے پسند ہے وہ یہ ہے کہ پڑھنے لکھنے سے شغف رکھتا ہے ـ ایک دن دورانِ گفتگو اس نے مجھ سے کہا کہ اسے کوئی ایسی کتاب بتاؤں جو اس کی سیاسی زندگی کے لیے فائدہ مند ثابت ہو ـ اسے میں نے گاندھی کی آپ بیتی "سچ کی تلاش" پڑھنے کا مشورہ دیا لیکن یہ بتانا بھول گیا کہ اس کتاب کو پڑھ کر گاندھی کی منافقت کو سمجھے اور اپنی سیاسی زندگی میں ایسے منافقوں سے بچ کر رہے اور خود بھی ایسی منافقت نہ کرے ـ کتاب پڑھ کر اسے کچھ تھوڑی سمجھ آئی، کچھ نہ آئی ـ خیر، بات آئی گئی ہو گئی ـ
میرا وہ دوست، اکثر عمران خان سے ملتا رہتا ہے، تحریکِ انصاف کا ایک پرجوش، متحرک اور مخلص کارکن ہونے کی وجہ سے عمران اسے کافی پسند بھی کرتا ہے ـ ایک دن دورانِ گفتگو اس نے خان سے گاندھی کی سول نافرمانی تحریک کا ذکر کر دیا اور بتایا کہ کیسے اس تحریک سے گاندھی نے انگریزوں کو زچ کیا، لیکن شاید اس نے اس تحریک کے دوران پیش آنے والے خونریز واقعات اور اس تحریک کا انجام نہیں پڑھا تھا یا وہ 
خان کو بتانا بھول گیا کہ اس تحریک کا نتیجہ کیا نکلا ـ خان کو یہ آئیڈیا بڑا پسند آیا اور بولا کہ دیکھو، میری بات سنو میں نے اپنی تحریکِ انصاف کے لیے اوبامہ کے تبدیلی کے نعرے سے لے کر ہٹلر کی طرح کے اندھے مقلد بنانے کی طرح ہر لیڈر کی نقل کی ہے اب وقت آنے پر اس سول نافرمانی کی تحریک کا چربہ بھی ہم لاگو کریں گے ـ 
اس دوست نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو خان نے اسے ٹوک دیا اور کہا کہ دیکھو، میری بات سنو، آپ کو کچھ نہیں پتہ، میرے پاس پورا پلان ہے ـ ایک ایک منٹ کا پلان ہے ـ تم دیکھنا اس چربے کو لاگو کرنے سے تاریخ میں، میرا نام بھی عظیم لیڈروں کے ساتھ آئے گا ـ اس دوست نے پھر کچھ کہنے کی کوشش کی مگر خان نے پھر ٹوک دیا اور کوکین سونگھنے کے لیے ہاتھ اوپر کیے، منہ آگے بڑھا کر ایک گہرا سانس لیا، اس کے ساتھ ہی خان کہ منہ سے مغلظات کے موتی برسنے لگے ـ پرویز خٹک نے پاؤنڈز میں قیمت لینے کے باوجود مرچوں ملی کوکین خان کو دی تھی، سچ کہتے ہیں کہ پارٹی وفاداری اپنی جگہ، کاروبار اپنی جگہ ـ خان جی نے کوکین پرے پھینکی اور ملا فضل اللہ کی طرف سے آئی خالص چرس کا سگریٹ بنانے لگے اور میرے دوست سے کہا، مجھے سب پتہ ہے بس مجھے گاندھی کا پورا نام بتا دو ـ دوست نے بڑی مشکل سے جان بخشی کروائی اور وہاں سے بھاگا ـ
کل صبح جب خان صاحب اپنے کارکنوں کو ایک بار پھر ُتھک لگا کر بنی گالہ جانے لگے تو ان کو اس دوست کی شکل نظر آئی اور اس کے ساتھ ہی سول نافرمانی کا خیال بھی آ گیا ـ خان نے دوست کو ساتھ گاڑی میں بٹھایا، ایک طرف خود بیٹھ گئے اور دوسری طرف گنڈا پور کو بٹھا دیا ـ دوست نے لاکھ کہا کہ خان صاحب، میں ایسا لڑکا نہیں مگر خان صاحب نے اسے پیار سے سمجھایا کہ صرف مشورہ کرنا ہے اور اس کو ساتھ لے کر بنی گالہ پہنچ گئے ـ
وہاں پہنچ کر خان نے کور کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا اور سول نافرمانی کے بارے میں سب سے پہلے خان نے شیریں مزاری سے پوچھا ـ شیریں مزاری نے فوراً اپنے بالوں کو مزید جامنی رنگ لگایا ہونٹوں پہ سبز لپ سٹک للگائی، اس سے پہلے کہ شیریں کچھ بولتی وہان ِبل بتوڑی ناساں چوڑی اور کرنانی چڑیل حاضر ہو گئیں ـ انہوں نے شیریں کے سامنے ہاتھ جوڑے کہ بہن ایسا نہ کیا کر، ہمارے بچے ڈر جاتے ہیں اور غائب ہو گئیں ـ اس کے بعد شیریں نے خان کو بتایا کہ مجھے بھی یہ خیال بہت بہت پسند آیا ہے ـ
خان نے جو اس دوران اپنا چرس والا سگریٹ بنانے میں مشغول تھے، شاہ محمود قریشی سے پوچھا، اس کو تو بہت ہی پسند آیا ـ شاہ صاحب نے اپنے مخصوص ملائم لہجے میں خان کو مخاطب کیا، "خان صاحب" اور تھوک کا ایک انبار نکل کے خان کے منہ پر گرا، ایک عظیم راہنما کی طرح خان نے اس چیز کا بالکل بھی برا نہیں مانا بلکہ بڑے تحمل کے ساتھ منہ سے تھوک صاف کیا اور اسی سے اپنا چرس والا سگریٹ گیلا کر کے سلگایا اور کش لگا کرشاہ کو بات جاری رکھنے کا اشارہ کیا ـ شاہ نے شرمندگی محسوس کرتے ہوئے منہ نیچے کیا اور کہا، خان صاحب، شاہ محمود قریشی کے ہوتے ہوئے آپ کو کسی فکر کی ضرورت نہیں، میں یہ تحریک ایسے چلاؤں گا جیسے برطانوی دور میں میرے بزرگوں نے ہندوستانیوں کے خلاف چلائی تھی ـ 
اب خان نے اپنی پارٹی کے دماغ اسد عمر سے بات کی ـ وہ ہوتا ہے نہ کہ تھوڑی دیر بعد کوئی خامی نظر آ ہی جاتی ہے، اس کو تو رتی برابر خامی نظر نہ آئی ـ لیکن پھر بھی اسد عمر نے اینگرو والے اپنے دوستوں سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا، وہاں کال کی تو انہوں نے سیدھا کہا کہ بھائی جو حرکتیں یہاں کر کے اینگرو سے لات کھا کر نکلے ہو، وہاں نہ کرنا ورنہ خان جو مارے گا وہ لات نہیں ہو گی ـ
خان نے سوچا کہ چونکہ مرد مار اور مردوں سے مشورہ کر لیا ہے کیوں نہ کسی خاتون سے بھی مشورہ کر لیا جائے ـ فوزیہ قصوری سے بات کی تو اس نے صاف کہا کیونکہ شیریں مزاری کو پسند آیا ہے تو میری طرف سے نہ ہی سمجھیں ـ اب ناز بلوچ کو بھی شامل کیا اس نے بڑے ناز سے کہا کہ خان صاحب مجھے تو بہت ہی زیادہ پسند آیا ہے ـ
اب خان صاحب چونکہ بزعمِ خود ایک عظیم راہنما اور انسانیت کے ملجا و ماوٰی ہیں تو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ غیر جانبدار لوگوں سے بھی رائے لے لی جائے ـ بس جی پھر کیا تھا، شیخ رشید اور مبشرلقمان سے مشورہ کیا، وہ تو اچھل پڑے کہ کیا کہہ رہے ہیں خان صاحب، اتنا زبردست خیال ـ مبشر لقمان تو کہنے لگا کہ مجھے میرے ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ گاندھی کا نہیں آپ کا اپنا ذاتی خیال ہے ـ اور گاندھی کو اس کے پنڈتوں، ِرشی منیوں اور جوتشیوں نے بتایا تھا کہ مستقبل میں ایک راہنما جس کا نام عمران خان ہو گا یہ تحریک چلائے گا اور اس نے آپ کی نقل کر کے بیسویں صدی میں یہ تحریک چلائی ـ شیخ رشید صاحب چونکہ ایک سیانے آدمی ہیں بلکہ سیانے کاں ہیں انہوں نے تعریف کرنے سے پہلے فوراً کال ملائی، ایک بیٹ مین سے اجازت طلب کی اور خان کو کہا کہ خان صاحب یہ خیال یا آپ کو آ سکتا ہے یا کسی جرنیل کو، کسی انسان کو ایسا خیال نہیں آ سکتا ـ اب یہ سب سن کر خان صاحب خود کو اتنا اونچا سمجھنے لگے جتنا کیلے کے درخت پہ چڑھ کر کیلے کھاتا ہوا باندر خود کو سمجھتا ہے یا خالص َگردے کے پانچ جوڑے پی کر چرسی خود کو سمجھتا ہے ـلو جی، خان نے فیصلہ کیا کہ اب اور تو کچھ ہوتا نہیں سول نافرمانی کا ہی اعلان کر دو ـشام کو جلسے میں آئے اور سول نافرمانی کا اعلان کر دیا ـ
تقریر کرنے کے بعد خان نے جاویدہاشمی سے پوچھا کہ ہاں بھئی باغی، کیسا دیا؟ ہاشمی صاحب ایک لحضے کو کو رکے، کچھ سوچا، ٹھنڈی سانس لی اور انہوں نے کہا خان صاحب، آپکے منہ پر تعریف نہیں، لیکن انتہائی ُاور شدید ُدر فٹے منہ آپکا ـ
رات گئے دوست کا فون آیا اور اس نے بڑے فخر سے کہا کہ یہ آئیڈیا خان کو میں نے دیا تھا ـ میں نے کہا نہیں دوست، قصور میرا تھا جو میں نے تجھے گاندھی کی کتاب "سچ کی تلاش" پڑھنے کا مشورہ دیا ـ

منگل، 12 اگست، 2014

جذبوں کا قصہ

یہ قصہ شاید محبت کا ہے یا شاید نفرت کا یا پھر شاید حسد کا یا پھر کسی اور جذبے کا اور شاید یہ قصہ ماضی بعید کا ہے یا شاید مستقبل بعید کا لیکن جو بھی ہو یہ قصہ نہ صرف قابلِ بیان ہے بلکہ ایک اٹل حقیقت بھی ـ
اس کہانی میں جو بھی حالات و واقعات پیش آئے ہیں وہ بھی نہ صرف حقیقت پر مبنی ہیں بلکہ تاریخِ بنی نوع انسان میں بارہا بار دہرائے گئے ہیں بلکہ ان کو دہرانا شاید انسانی فطرت و نفسیات کا جزو لازم بن چکا ہے ـ
بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ زمانہ وہ ہے جب انسان ترقی کی معراج پہ پہنچ چکا ہے، دنیا سے غربت و افلاس کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے ـ تعلیم، صحت اور روزگار ہر انسان کی دسترس میں ہے ـ پیدائش کے ساتھ ہی تعلیم و تربیت کی مکمل ذمہ داری ریاست لے لیتی ہے اور اپنا فرض پوری ایماندرای سے ادا کرتی ہے ـ
لیکن اس دور میں بھی ریاستوں کے درمیان باہمی چپقلش جاری ہے ـ ترقی کی انتہا کے باعث ایسے ایسے ہتھیار ایجاد ہو چکے ہیں کہ جن کے تباہ کن اثرات کی نظیر نہیں ملتی ـ جاسوسی کے بھی جدید ترین اور نت نئے نظام وضع کیے جا چکے ہیں ـ لیکن خوش کن بات یہ ہے کہ یہ جاسوسی زیادہ تر دوسری ریاستوں کے عوام دوست منصوبوں کی کی جاتی ہے اور ان کو اپنے عوام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ـ
اسی دورِ معراجِ انسانیت میں ایک ریاست نے دوسری ریاست کے ایک فلاحی منصوبے کو اس کے نفاذ سے پہلے چوری کر لیا ـ جب اس ملک کی حکومت و عوام کو اس کا علم ہوا تو ان میں سخت اشتعال پھیل گیا ـ دوسرے ملک نے بھی اکھڑ پن کا مظاہرہ کیا اور معاملات درست ہونے کی بجائے بگڑتے چلے گئے ـ صلح کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں رائیگاں گئیں ـ
بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ جتنی مرضی ترقی کر لے انسان اپنی فطری ضد اور انا پر بمشکل ہی قابو پا سکتا ہے اور جب ان کے ساتھ وطنیت اور قومیت کا تڑکا لگ جائے تو معاملات مزید بگڑتے ہیں ـ انہی لمحہ بہ لمحہ بگڑتے حالات میں ایک ملک نے دوسرے پر حملہ کر دیا ـ دوسرے نے بھی برابر کا جواب دیا ـ
دنیا جو پہلے امن اور بقائے باہمی کے اصول پر چل رہی تھی، اب واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ـ دونوں ریاستوں کے حلیفوں کے باہمی تعلقات بھی شدید نوعیت کے تناؤ کا شکار ہو گئے ـ بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک اس جنگ کی وجہ سے کئی دوسری ریاستوں کے مابین بھی جنگ چھڑ گئی ـ قصہ مختصر، اس جنگ نے عالمی جنگ کے عفریت کی شکل اختیار کر لی ـ
بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ایک جاسوسی کے واقعے سے عالمی جنگ کا چھڑنا اصل واقعہ نہیں، اصل واقعہ کچھ اور ہے ـ تو کہا جاتا ہے کہ جب تمام انسانیت، دیوانگی کا شکار ہو کر اس عالمی جنگ میں قتل و غارت میں مصروف تھی تو ایسے میں کچھ اصل دیوانے اٹھ کھڑے ہوئے ـ جی ہاں، اصل دیوانے، جنہوں نے ہمیشہ امن و آشتی کی بات کی ہے جنہوں نے آگ میں پھول کھلانے کے سپنے دیکھے ہیں، وہی دیوانے اٹھ کھڑے ہوئے ـ
ان کا تعلق کسی خاص مذہب، قوم اور نسل سے نہیں ـ یہ بس احترامِ انسانیت پر یقین لوگ تھے ـ انہوں نے باقاعدہ ایک عالمگیر تحریک چلانا شروع کی اور لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کہ یہ وحشت سب کچھ برباد کر کے رکھ دے گی ـ قرنوں کے سفر کے بعد حاصل ہونے والی منزل کھو جائے گی ـ لیکن ان کے ساتھ وہی ہوا، جو تاریخ میں ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے ـ ان کو پاگل، غدار وغیرہ کہہ کر پکارا گیا، بھلا اندھوں کے شہر میں بھی کوئی آئینوں کا خریدار ہوتا ہے؟
ان حالات میں ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ یہ اپنے اپنے ملک چھوڑ کر کسی ویران خطے میں جا بسیں جو اس جنگ کی حشر سامانیوں سے محفوط ہو ـ سو ایسا ہی کیا گیا ـ باقی دنیا میں جنگی جنون سر چڑھ کر بول رہا تھا ـ تباہ کن ہتھیار، جن کا ذکر نہ پہلے کبھی کسی نے سنا تھا نہ دیکھا تھا، اس جنگ میں آزمائے گئے اور بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ان ہتھیاروں سے ایسی تباہی پھیلی کہ نہ صرف مہذب دنیا سے تہذیب کا خاتمہ ہو گیا بلکہ ترقی و تہذیب کی معراج کے سنگھاسن پر بیٹھی انسانیت اور انسانوں کا بھی ـ بچے تو صرف وہ دیوانے، جو اس جنگ سے علیحدہ ہو کر کہیں ُدور جا بسے تھے ـ
انہوں جب اپنے ساتھ والوں کا یہ انجام دیکھا تو فیصلہ کیا کہ دنیا کو نئے سرے سے تعمیر کیا جائے اور اس بار دنیا کی بنیاد ان اصولوں پر رکھی جائے جن کا ہم پرچار کرتے ہیں تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں دوبارہ ایسی عظیم تباہی کا شکار نہ ہوں ـ یہ لوگ آپس میں اٹھتے بیٹھتے، انہوں نظریوں اور فلسفوں کا پرچار کرتے اور جو بچے ان کے ساتھ ان کے ذہن میں یہ باتیں نقش کرنے کی کوشش کرتے ـ
اس گروہ میں چند نوجوان بھی تھے جو ان نظریات اور فلسفوں کو لیکر بیحد جوشیلے اور سنجیدہ تھے اور ان نظریات کو مزید بہتر اور قابلِ عمل بنانے کی سوچ میں سرگرداں رہتے ـ ایسے میں ان میں سے ایک نوجوان کو بچھی کچھی انسانیت کے اس گروہ میں موجود ایک لڑکی سے محبت ہو گئی، جی ہاں محبت، وہی محبت جس نے اس تباہ کن جنگ میں بھی کچھ انسانوں میں آدمیت کو باقی رکھا اور نسلِ انسانی کو عنقا ہونے سے بچا لیا ـ وہی محبت، جو ازل سے ابد تک خالق کا مخلوق سے محبت کا ثبوت بھی ہے اور اسی مخلوق سے امید کا نشان بھی ـ یہ وہی محبت تھی جس پہ اس گروہ نے آگے چل کر ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھنے کی ٹھانی تھی ـ
اس نوجوان کو اس لڑکی کے خیالات نے بیحد متاثر کیا اور وہ اکثر سوچتا کہ پرانی دنیا میں اگر عنان اقتدار اس لڑکی کے ہاتھوں میں ہوتا تو شاید وہ ہنستی بستی دنیا آج بھی قائم ہوتی ـ لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ اس مختصر سے گروہِ آدمیت میں کوئی اور بھی تھا جو خود اس نوجوان سے متاثر ہو چکا تھا ـ یہ ایک اور لڑکی تھی جو اس نوجوان کے بارے میں سوچتی تھی کہ اگر پرانی دنیا میں یہ نوجوان معاملات کا ذمہ دار ہوتا تو شاید وہ ہنستی بستی دنیا آج بھی قائم ہوتی ـ
نظریات، خیالات اور فلسفوں کے ارتقاء میں یونہی وقت گزر رہا تھا اور ایک نئی پرامن دنیا کا خواب توانا ہوتا جا رہا تھا کہ ایک دن اس نوجوان نے اپنی محبوبہ کو ایک دوسرے نوجوان کے ساتھ دیکھ لیا اور دیکھا بھی اس حال میں کہ جب وہ محبت میں گم تھے ـ نہ جانے کس جذبے کے تحت بے قابو ہو کر وہ آگے بڑھا اور ایک پتھر لے کر اس دوسرے نوجوان کا سر کچل ڈالا ـ
جب اسے ہوش آیا تو اسے احساس ہوا کہ وہ کیا کر بیٹھا ہے ـ اس کا یہ فعل تو اس کے احساسات و نظریات کے خلاف تھا ـ اس نے خوفزدہ ہو کر وہاں سے بھاگنے میں عافیت جانی تو ایسے میں اس کا ساتھ دینے کے لیے وہ آن موجود ہوئی جو اس کو چاہتی  تھی ـ وہ دونوں وہاں سے فرار ہو گئے ـ
ایک نئی "پرانی دنیا" کی بنیاد رکھی جا چکی تھی ـ
لاش کے پاس ایک لڑکی بے ہوش پڑی تھی اور ایک پرندہ چیخ رہا تھا، شاید وہ کوا تھا ـ

بدھ، 30 جولائی، 2014

کاغذ کے خط

وہ روزانہ ہماری گلی سے گزرا کرتی تھی۔ لڑکپن کا دور تھا، عمر یہی کوئی سولہ سترہ سال تھی میری اور وہ پندرہ سولہ کی ہو گی۔ کچی عمر میں کچھ حادثے جلدی رونما ہو جاتے ہیں، محبت بھی ایک ایسا ہی حادثہ ہے، لیکن یہ حادثہ حسین حادثہ ہوتا ہے یا ایک سانحہ بن کر کئی زندگیوں کو برباد کر دیتا ہے یہ اس کے پر منحصر ہوتا ہے۔
خیر، دل کو وہ بہت بھاتی تھی، بھولی سی معصوم سی، چلتی تو یوں لگتا جیسے پانی سطح پر بہار کی ہوا ہولے سے گزرتی ہے، جیسے گلشن میں بادِ نسیم بھینی بھینی خوشبو بکھیرتی ہے، جیسے دسمبر کی دھوپ زندگی بانٹتی ہے۔ جی چاہتا تھا کہ بس وہ سامنے رہے، عجیب کیفیت ہوتی تھی اس کو دیکھ کر، میں آج تک اس کیفیت کو کچھ نام نہیں دے پایا، شاید اس عمر کی محبت ان نام نہاد کیفیات اور جذبوں سے بالاتر ہوتی ہے۔ مادی و جسمانی ضروریات سے بہت اونچی، بہت مقدس۔
اس سے بات کرنے کو جی بھی چاہتا تھا، لیکن ڈر بھی لگتا تھا کہ کہیں انکار نہ ہو جائے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس کی ایک سہیلی بھی ساتھ ہوتی تھی۔ سہیلی کیا تھی، مجھے تو ہٹلر اور ہلاکو خان کی کوئی قریبی رشتہ دار لگتی تھی۔ شاید ہر محبت کرنے والے کو سہیلیاں ایسی ہی لگتی ہوں، کا ب میں ہڈی کی مانند۔ اس کے چہرے پر ہر وقت بربریت چھائی رہتی یا شاید مجھے ایسا لگتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ راہ چلتے ہر شخص کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور لڑنے مرنے پر آمادہ ہے۔ میں اکثر حیران ہوتا تھا تھا کہ اس قدر معصوم لڑکی کی ایسی جابر و قاہر ِدکھنے والی لڑکی سے دوستی کیسے ہو گئی۔
پھر آخرکار محبت میں وہ مقام آ ہی گیا جب یہ شدت سے یہ احساس ہونا شروع ہو گیا کہ اب اظہار کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اب اگر اظہار نہ کیا تو اس دل کا کوئی چارہ گر نہیں۔ ایک دوست سے مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہیے، دوستوں میں سے سیانا بندہ تھا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس دوست سے حالِ دل تو تمام بیان کیا مگر اسے یہ نہیں بتایا کہ لڑکی کون ہے، کیونکہ وہ بھی اسی گلی میں رہتا تھا اور یہ دھڑکا بھی تھا کہ اگر وہ اسی کی محبت میں گرفتار ہوا تو کوئی غلط مشورہ ہی دے گا جس سے میں اس کے راستے کا کانٹا بننے سے پہلے ہی ہٹ جاؤں گا۔ اس نے تسلی سے تمام حالاتِ دل سنے اور پھر کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا کہ ایک خط لکھ رکھو اور اس میں تمام حالِ دل کہہ ڈالو اور جب وہ گزرے تو اس کے سامنے پھینک دو۔
اب مرحلہ خط تحریر کرنے کا تھا۔ آپ شاید نہیں جانتے میں بچپن ہی سے کافی کاملیت پسند واقع ہوا ہوں۔ خط لکھنے، اور وہ بھی محبوبہ کو، کا کوئی تجربہ نہ تھا سو باتوں باتوں میں ان دوستوں سے جو محبوباؤں کو خط لکھنے میں ماہرینِ فن اور طاق سمجھے جاتے تھے، ان سے خطوط لکھنے کا طریقہ و تکنیک پوچھی اور بہت محنت سے ایک خط تحریر کیا۔ اس خط کو تحریر کرنے کے لیے گھر والوں سے چھپ کر چھت والے کمرے میں بیٹھ کر پہروں سوچا، الفاظ ترتیب دئیے حتٰی کہ لفظوں کی املاء بھی سیکھی کہ اگر کوئی لفظ غلط تحریر ہو گیا اور اس کو صحیح بات نہ پہنچی اور انکار ہو گیا تو کیا ہو گیا۔ خیر، خط تحریر کیا گیا، جذبات کی شدت بیان کرنے کو نیلی روشنائی کی جگہ سرخ روشنائی استعمال کی اور اسے اپنا خون بتلایا۔
اگلی صبح جب وہ گزری تو خط پھینک دیا، خط عین اس کے قدموں میں جا گرا، وہ چونکی، پھر مجھے دیکھا اور مسکرا کر خط اٹھا لیا۔ سہیلی نے کان میں کچھ کہا لیکن اس نے سر ہلایا اور وہ آگے چل پڑیں۔ سہیلی کے چہرے سے یوں محسوس ہوا کہ وہ شدید غصے اور جلن کا شکار ہے اور مجھے قتل کر دینا چاہتی ہے۔ آئینہ دیکھتے یکدم ہی ایک خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہلاکو سہیلی خود ہم میں دلچسپی رکھتی ہو کیونکہ ہم بھی اچھے خاصے ِدکھتے تھے۔ یہ ڈر بھی لگ گیا کہ کہیں وہ سہیلی اس کو غلط مشورہ نہ دے دے اور اس کو مجھ سے ُدور بہے ُدور کر دے، مگر پھر اس کی مسکراہٹ یاد آ گئی تو حوصلہ بڑھا، ایک اور خط لکھنے کی تیاری شروع کر دی اور اس دفعہ ایک ہی پہر میں خط تحریر کر لیا۔
اگلے دن وہ خط بھی اس کے قدموں میں دل کی طرح پھینک دیا۔ ایک مزید مسکراہٹ عطا ہوئی اور حوصلہ مزید بڑھا۔ قصہ مختصر، سات دن لگاتار سات خط پھینکے، مگر مسکراہٹ کے سوا کچھ جواب نہ ملا۔ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ ہر خط اپنی لفاظی، املاء اور اظہار میں پچھلے خط سے بڑھ کر تھا۔ اب مجھے لگتا ہے کہ اگر میں نے یہ خطوط کسی پتھر کی دیوی کو تحریر کیے ہوتے تو وہ بھی جذبات کی شدت و سچائی سے متاثر ہو کر میری محبت کا اقرار کر لیتی مگر وہ نہ جانے کیا چاہتی تھی کہ مسکرا تو دیتی مگر اس سے زیادہ ایک لفظ نہ بولا۔
پھر اسی سیانے دوست سے مشورہ مانگا۔ ساری داستان سنائی مگر اب بھی یہ نہ بتایا کہ لڑکی کون ہے، کیونکہ ڈر وہی تھا جس کا ذکر اوپر ہو چکا۔ ساری بات سننے کے بعد، سیانا تو وہ تھا ہی، وہ بولا کہ دوبدو بات کرو، شاید وہ تمہاری زبانی اقرارِ محبت سننا چاہتی ہے۔ یہ بات دل کو لگی۔
اگلے دن، بہت ہمت کر کے اس کے راستے میں کھڑا ہو گیا، گلی کے موڑ سے وہ نمودار ہوئی، شاید آج میری قسمت اچھی تھی کہ آج وہ اکیلی تھی، اس کی وہ دشمن نما سہیلی اس کے ساتھ نہ تھی۔ دل کو امید ہو چلی کہ آج اپنا ہی دن ہے کیونکہ ایک تو وہ اکیلی تھی اور دوسرا گلی میں ُدور ُدور تک کوئی نہ تھا۔ جب وہ پاس سے گزرنے لگی تو اس کو روک لیا اور گبھراہٹ کے ساتھ کہ کہیں کوئی بزرگ دیکھ نہ لے، جلدی جلدی پوچھا کہ وہ روز میرے خط اٹھا تو لیتی ہے مگر جواب کیوں نہیں دیتی ۔ اس نے خطوط کے ذکر کر بہت حیرت سے مجھے دیکھا اور عجیب اجنبی نظروں سے دیکھا اور پھر اس نے جو جواب دیا وہ آج بھی یاد آئے تو رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔
اس نے کہا، ”باؤ! میں ایتھے کاغذ چنڑ آنی آں"!!!
۔
نوٹ: تحریر کا مرکزی خیال، ایک پنجابی جگت سے مستعار لیا گیا ہے۔

منگل، 15 جولائی، 2014

دھاندلی کا شور اور اس کا منطقی انجام

قدیم زمانے سے ہی سازشی عناصر کی ِریت چلی آ رہی ہے کہ کسی بھی اچھی چیز کو برا ثابت کرنے کے لیے تسلسل سے اس کے بارے میں اتنے شکوک و شبہات پھیلا دو کہ لوگ اسے غلط سمجھنے لگیں ـ اس کی ایک بہت بڑی مثال منگول بادشاہ غازان کے وزیر رشید الدین کی ہے، جس کے یہودی ہونے کے بارے میں اتنا پراپیگنڈہ کیا گیا کہ اس کی موت اور تدفین کے بعد اس کے شاگرد اور بادشاہِ وقت غازان کے حکم پر اس کی لاش کو قبر سے نکال کر مسلمانوں کی بجائے یہودیوں کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال دو ہزار تیرہ کے الیکشن کی ہے۔
محاورہ ہے کہ الیکشن میں یا تو ہم جیتتے ہیں یا دھاندلی ہوتی ہے، پاکستان کے سیاسی ماحول پر بالکل صادق آتا ہے۔ جب جب، جو جماعت ہاری اس نے دھاندلی کا ہی شور مچایا ۔ جو جتنے زیادہ فرق سے ہارا، اس کے ساتھ اتنی ہی بڑی دھاندلی ہوئی۔ جن کی ضمانتیں ضبط ہوتی ہیں، وہ بھی دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں۔ سیاسی بلوغت اور شعور کی کمی اس طرزِ عمل کی بڑی وجوہات میں سے ہیں۔ اسی شعوری کمی کی وجہ سے اس مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا۔
دو ہزار تیرہ کے انتحابات کے بعد مسلم لیگ نواز کو واضح برتری حاصل ہوئی اور اس نے مرکز اور پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی۔ ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت تحریکِ انصاف نے حیران کن کارکردگی دکھاتے ہوئے پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں نشستیں لیں اور خیبرپختونخواہ میں ایک اتحادی حکومت تشکیل دی۔ پیپلزپارٹی نے سندھ میں حکومت بنائی اور بلوچستان میں مسلم لیگ نواز نے قوم پرستوں کیساتھ اتحادی حکومت بنائی۔
انتحابات کے کچھ عرصے بعد تحریکِ انصاف کی طرف سے دھاندلی کے الزامات سامنے آئے جس میں چار حلقوں کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا گیا، جسے حکومتی حلقوں میں "روٹین میٹر" کے طور پر لیا گیا۔ اگر متعلقہ نمائندگان کو فوراً مستعٰفی ہونے کا کہہ دیا جاتا اور ضمنی انتحابات کروا دئیے جاتے تو شاید بات وہیں ختم ہو جاتی، لیکن ایسا نہ ہوا۔
دوسری طرف، الزامات لگانے والوں کی سنجیدگی کا اندازہ بھی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو کام الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے کرنے کے ہیں، وہ حکومت سے کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ تاکہ، حکومت اپنی حدود سے تجاوز کرے اور اداروں میں ٹکراؤ پیدا ہو۔ سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جن کیخلاف دھاندلی میں شامل ہونے کے الزامات لگائے گئے، وہ کسی بھی طرح براہِ راست الیکشن کے عمل کا حصہ نہ تھے۔ سابقہ چیف جسٹس پر الزامات کا کوئی ثبوت نہیں اور ایک نشریاتی ادارے کیخلاف الزام تراشی محض اس بات پر ہے کہ اس نے مسلم لیگ کے سربراہ کی جیت کی تقریر نشر کی۔ اس کے علاوہ ایک ملٹری انٹیلیجنس کے بریگیڈیر کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ بھی دھاندلی میں شریک ہیں مگر اب ان کا ذکر بھی نہیں آتا۔ پینتیس پنکچروں کا شوشہ بھی چھوڑا گیا مگر اس کے بارے میں بھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
یہ تمام چیزیں وہ ہیں جو عوامی سطح پر تو بکتی ہیں مگر آئینی و قانونی معاملات میں بغیر ثبوت کے آپ کچھ ثابت نہیں کر سکتے، اور قانون کی ُرو سے ثبوت دینا الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے، ملزم محض اپنا دفاع کرتا ہے۔ ثبوت دئیے بغیر، اب یہ مطالبہ پورے الیکشن پر پھیل گیا ہے اور دوبارہ انتحابات کا مطالبہ کر دیا گیا ہے اور آزادی مارچ کے نام سے چودہ اگست کو اسلام آباد میں دھرنے وغیرہ کا بھی پروگرام ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دھرنے کا منطقی انجام کیا ہو سکتا ہے۔
۱۔ حکومت طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اس مارچ کو شروع ہونے سے پہلے ہی روک دے، مگر اس سے مستقبل میں مزید انارکی پھیل سکتی ہے۔
۲۔ مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد آنے دیا جائے اور وہ پرامن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا کے واپس چلے جائیں۔
۳۔ مارچ کے شرکاء اسلام آباد پہنچیں اور دارلحکومت کو یرغمال بنا کر اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کریں۔
میری رائے میں تیسرے نکتے پر عملدرآمد کے مواقع زیادہ ہیں، کیونکہ کسی لامحدود مدت کے لیے لوگوں کو بٹھائے رکھنا ممکن نہیں۔
تحریکِ انصاف کے سربراہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کوئی غیرآئینی قدم نہیں اٹھائیں گے اور بلاشبہ وسط مدتی انتحابات کا مطالبہ بالکل آئینی ہے ۔ فرض کرتے ہیں کہ ان کا یہ مطالبہ مانتے ہوئے وزیراعظم ایوانِ زیریں تحلیل کر دیتے ہیں تو کیا ہو گا؟ آئین کی ُرو سے وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف باہمی مشورے سے نگران وزیراعظم کا چناؤ کریں گے اور انہی دونوں کے تجویز کردہ چیف الیکشن کمشنر کی زیرِ نگرانی انتحابات ہوں گے۔ کیا وسط مدتی انتحابات کے بعد پھر دھاندلی کا شور شروع ہو گا اور حکومتیں گرتی رہیں گی؟

جمعہ، 20 جون، 2014

سانحہء ماڈل ٹاؤن پر غیر جذباتی تجزیے کی کوشش

ماڈل ٹاؤن لاہور میں جو کچھ ہوا، اس پر بلاشبہ سوائے اظہارِ افسوس کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی جانوں کے ضیاع کا دفاع کرنا نہ صرف ایک قابلِ مذمت فعل ہے بلکہ انسانیت کے مقام سے گرا دینے والی حرکت ہے۔ جو بھی اس قسم کی قبیح حرکت کرے وہ بھی قاتلین جیسا مجرم ہے۔
تجاوزات یا بیریئر ہٹانے کی کوشش کے درمیان پولیس جو کہ انتظامیہ کا حصہ ہے اور پاکستان عوامی تحریک جو کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیروکاروں کی جماعت ہے جھڑپیں ہوئیں جن کے نتیجے میں عوامی تحریک کے کارکنان کی جانیں گئیں۔ اب ذرا غیرجذباتی طور پر اس سانحے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ پولیس کی مجوزہ کوشش یا تو قانونی طور پر درست تھی یا غلط تھی، ان دو باتوں کے سوا کوئی تیسرا راستہ نہیں تھا۔ ان ہر دو صورتحال میں عوامی تحریک کے پاس درج ذیل راستے موجود تھے۔
۱۔اگر پولیس کا آپریشن غیرقانونی تھا تو پولیس کو بیریئر ہٹانے دیتے اور بعد میں عدالت کے ذریعے اپنا حق لے لیتے۔
۲۔ اگر پولیس کا آپریشن قانونی تھا تو پولیس کے ساتھ تعاون کرتے اور انہیں بیریئر ہٹانے دیتے۔
۳۔ آپریشن کے قانونی و غیرقانونی ہونے سے قطعءنظر پولیس کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کرتے اور ان کو بیریئر ہٹانے سے روکتے۔
یہ بات میں قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ عوامی تحریک نے کونسا راستہ اختیار کیا۔
اب آتے ہیں انتظامیہ کی طرف، انتطامیہ کے پاس بھی کچھ راستے موجود تھے، لیکن ایک بات طے ہے کہ انتطامیہ نے آپریشن کے لیے جو وقت چنا وہ بالکل غلط تھا۔
۱۔ عدالتی بیلف کے ساتھ دن کی روشنی میں جاتے اور بیریئر ہٹا دیتے۔
۲۔ عوامی تحریک کے جلسے جلوس ختم ہونے کے بعد بیریئر ہٹا لیتے۔
۳۔ مزاحمت کی صورت میں امنِِ عامہ کے وسیع تر مفاد میں پیچھے ہٹ جاتے اور مقدمات کا اندراج کر کے عدالتوں کے ذریعے سزا دلواتے۔
۴۔ مزاحمت کی صورت میں، طاقت کا استعمال کر کے اپنا فیصلہ نافذ کرتے۔
اب یہ بھی میں قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ انتطامیہ نے کونسا راستہ اختیار کیا۔
اب آتے ہیں مقصدِ تحریر کی طرف، ہماری اکثریت اس بات سے متفق ہوگی کہ سوائے جابر ترین آمریتوں کے کوئی حکومت یہ نہیں چاہے گی کہ اس کے دور میں عوام اور انتظامیہ کے درمیان تصادم ہو اور انسانی جانوں کا ضیاع ہو، اس سے نہ صرف امن و امان میں نقص پڑتا ہے، کاروبارِ ریاست معطل ہو جاتا ہے بلکہ حکومت کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ پنجاب میں پچھلے چھ سال سے مسلسل مسلم لیگی حکومت ہے اور اس عرصے میں تقریباﹰ ہر سیاسی جماعت نے عموماً پورے پنجاب اور خصوصاً لاہور میں بہت بڑے بڑے جلسے کیے ہیں، لیکن کسی بھی جگہ ایسا اندوہناک واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ تحریکِ انصاف کی نسبت عوامی تحریک کی عوامی حمایت کئی سو گنا کم ہے اور تحریکِ انصاف مسلم لیگ کی سب سے بڑی ناقد بھی ہے مگر ان کے ساتھ بھی کبھی طاقت کا استعمال نہیں کیا گیا، تو یہاں ایسا کیا ہوا کہ نوبت خون خرابے تک آگئی۔ میری ناقص رائے میں، جب عوامی تحریک کی طرف سے مزاحمت کی گئی تو کچھ ایسے واقعات پیش آئے ہوں گے کہ پولیس نے جذباتی ہوکر طاقت کا بے جا استعمال کیا۔ عوامی رابطے اور برقیاتی میڈیا پر بہت سی تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں پولیس گردی بھی واضح ہے اور عوامی تحریک کی طرف سے پتھر اور پٹرول بمبوں کا استعمال وغیرہ بھی۔
اس واقعے کے بعد جو کچھ ہوا وہ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں، پنجاب حکومت نے ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کی درخواست دی گئی مگر عوامی تحریک کی طرف سے اسے یکسر مسترد کردیا گیا، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ رویہ بہت خطرناک ہے، جب آپ سوائے فوج کے کسی ریاستی ادارے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تو عدل کیسے ہوگا، کیونکہ آئینی طور پر فوج کا کام عدل کرنا نہیں بلکہ ریاست کی حفاظت کرنا ہے، عدل کرنا عدلیہ کا کام ہے اور یہ انتطامیہ سے بالکل الگ ہے۔
آخر میں چند سوالات چھوڑے جا رہا ہوں جو کہ میرے اور مجھ جیسے بہت سے شہریوں کے ذہن میں پیدا ہوئے ہیں۔
۱۔ شہبازشریف صاحب، آپ اس ملک کے سب سے زیادہ کام کرنے والے وزیراعلٰی ہیں، اور انتظامی امور پر آپ کی گرفت بیحد مضبوط ہے، آپکی موجودگی میں اتنا بڑا سانحہ ہوگیا اور آپ کیسے بےخبر رہے؟
۲۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب، آپ اپنی سیاست کا مرکز آئین کو بتاتے ہیں تو برائے مہربانی آئینی حدود میں فوج، عدلیہ، مقننہ اور انتطامیہ کی حیثیت بھی بتائیں؟
۳۔ آپ خود کو شیخ الاسلام بھی کہلواتے ہیں تو ذرا یہ بھی بتا دیں کہ کونسا اسلام مردوزن کے اس طرح کے مشترکہ اجتماعات کی اجازت دیتا ہے؟
۴۔ اور اگر ممکن ہو تو یہ لازمی بتائیے گا کہ کس اسلام کی رو سے آپ کے اہل و عیال تو گھر میں تھے مگر آپ کے مریدین مرد و خواتین باہر ریاستی اداروں کو چیلنج کر رہے تھے؟

 شکریہ

پیر، 19 مئی، 2014

تپتی دھوپ میں چھاؤں جیسی ہے

تپتی دھوپ میں چھاؤں جیسی ہے
دوست تو ہے پر ماؤں جیسی ہے
یوں تو شہر کی  رہنے والی ہے
اپنی ہر چھب میں گاؤں جیسی ہے
جو ملیں ہمیشہ کسی مستحق کو
فقیر کی مانگی دعاؤں جیسی ہے
پردہ جو رکھیں ہمیشہ پاروتی کا
کورو کے دربار میں رداؤں جیسی ہے
کیا فرار ڈھونڈوں تجھ سے زیست
آ جا کہ تجھے ِبتاؤں جیسی ہے!!

جمعرات، 15 مئی، 2014

دیواروں کا جنگل اگتا ہی چلا گیا

دیکھ کر مجھے وہ انجان ہو گیا
عجب یہ اپنا سلسلۂ پہچان ہو گیا
دیواروں کا جنگل اگتا ہی چلا گیا
درختوں کا شہر سارا ویران ہو گیا
اس قدر وفائیں لٹیں سرِ عام کہ
شہر کوفہ کا بھی پشیمان ہو گیا
ناقدری سے یوں نبھائی وفا کہ
وہ بے مہر بھی آخر مہربان ہو گیا
سوچ ہی کا استعارہ ہیں مژگانِ نم
ُتو تو مرے لفظوں کی پہچان ہو گیا

اتوار، 4 مئی، 2014

وقار کا مسئلہ

کچھ دنوں سے جس محفل میں بیٹھتا، وقار کی بات چھڑ جاتی، انٹرنیٹ کھولو، اس پہ بھی وقار، دوست سے فون پہ بات، وہاں بھی وقار ـ ذہن چکرا کر رہ گیا کہ آخر یہ وقار ہے کون اور سب اس بیچارے کے پیچھے کیوں پڑے ہیں ـ ہر دوسرا بندہ اسے کوس رہا ہے ـ آخر وقار نے اس قوم کا بگاڑا کیا ہے ـ ایک خیال تو ذہن میں یہ پیدا ہوا کہ شاید ہماری پاکستانی قوم نے پھر استاد امام دین گجراتی، حامد میر اور زبیدہ آپا کے ٹوٹکوں کی طرح کوئی فراغتی مصروفیت ڈھونڈ لی ہے ـ آخر تنگ آ کر اس موضوع پر تحقیق کرنے کا سوچا ـ اس تحقیق میں جو حقائق سامنے آئے اور ان کی بنیاد پر فدوی نے جو نتائج مرتب کئے وہ آپ کے پیشِ خدمت ہیں ـ
۱ ـ وقار ایک کھلاڑی ہے، جو اپنے آپ کو ہر کھیل کا بہترین کھلاڑی سمجھتا ہے لیکن ٹیم ورک پر یقین نہیں رکھتا اور اکیلے اس سے کھیلا نہیں جاتا ـ
۲ ـ وقار، ماشاءاللہ سے انتہائی خوش خوراک ہے اور کسی بھی کھانے کے موقع پر ساٹھ سے ستر فیصد حصہ وقار ہی چٹ کر جاتا ہے ـ
۳ ـ وقار، کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ماشاءاللہ سے سائنسدان، طبیب اور سیاستدان بھی ہے، کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے کوئی چاہے نہ چاہے اپنے نیم حکیمی نسخے بالمعاوضہ زبردستی اگلے کے منہ میں گھساتا ہے ـ تھوک سے پکوڑے تلنے، الٹے بانس بریلی بھیجنے اور ایک مخصوص مائع میں سے مچھلیاں پکڑنے میں وقار کو خاص ملکہ حاصل ہے ـ
۴ ـ مذہب اور لبرل علوم کا بھی وقار بہت بڑا ماہر ہے ـ حسبِ ضرورت (ذاتی) وقار کبھی مذہبی راہنما کے روپ میں نظر آتا ہے اور کبھی تان پورے پر اپنے عبور کے جوہر بھی دکھاتا ہے ـ کبھی بنیاد پرستی کو راہِ جنت بتاتا ہے اور کبھی ماڈرنائزیشن کو ترقی کی منزل کا پہلا زینہ ثابت کر دیتا ہے ـ
۵ ـ داخلی اور خارجہ امور پر بھی وقار کو عبور ہے ـ داخلی سطح پر معاملات بگاڑنے ہوں یا بین الاقوامی سطح پر تعلقات، وقار کو ہر دو معاملات میں یکساں اور باقی دنیا کے تمام ماہرین پر ایک خصوصی برتری حاصل ہے ـ اس ضمن میں شاید عیدی امین، قذافی، صدام، سٹالن، ہٹلر اور ملا عمر ہی وقار کے ساتھ مقابلے کا دعٰوی کر سکتے ہیں ـ
۶ ـ ادب میں بھی وقار کا ایک خاص مقام ہے ـ کسی خاص مقام کے ڈوبنے پر ایسی زبردست تحریر بھی لکھ سکتا ہے جس میں وقار صریحاً بے قصور نظر آتا ہے اور فرشتے بھی قصوروار دکھائی دیتے ہیں ـ اس کے علاوہ ادب کے ذریعے عوام میں بسم اللہ، سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اللہ جیسے اوراد بھی پھیلائے جاتے ہیں تاکہ عوام کتاب پڑھے نہ پڑھے کتاب کا نام پڑھ کر ہی ثوابِ دارین حاصل کرے ـ البتہ، ضرورت پڑنے پر وقار، مختلف صاحبانِ قلم و نطق کی خدمات بھی احساناً قبول کرتا ہے اور ان نام نہاد بابوں کی عظمیت و پاکیزگی بھی عوام کے ذہن پر ثبت کر دیتا ہے ـ
۷ ـ وقار کی ایک اور بڑی صلاحیت یہ ہے کہ وقار کیخلاف اٹھنے والی آواز کچھ عرصہ بعد خود بخود خاموش ہو جاتی ہے اور اگر آواز خاموش ہونے پر رضامند نہ ہو تو کہیں لاپتہ لازمی ہو جاتی ہے اور پھر آواز کے لواحقین آواز کو ڈھونڈنے کے لئے گلی کوچوں اور نگر نگر آواز ہی لگاتے پھرتے ہیں ـ
۸ ـ وقار کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وقار کچھ مخصوص معاملات میں نہ نہیں کر سکتا ـ جب بھی کسی نے کسی اور کی مخالفت میں وقار کو ایک مخصوص عمارت میں قیام کی دعوت دی ہے، وقار نے دعوت دینے والے کی پشتوں اور اس قعم ' پر احسانِ عظیم کرتے ہوئے نہ صرف دعوت قبول کی ہے بلکہ اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ یہ قیام طویل سے طویل تر ہو ـ
۹ ـ وقار کے جلال کا عالم یہ ہے کہ کوئی وقار کے سامنے انکار نہیں کر سکتا  ـ اگر کوئی بدنصیب، قسمت کا مارا، وقار کے سامنے لفظِ انکار بول ہی دے (یاد رہے کہ یہاں بول سے کوئی ایسا ادارہ مراد نہیں ہے، جس کا الزام بھی وقار پر لگتا ہے) تو اس کو جلالِ وقاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ لڑکیوں کے کالج کے سامنے نظربازی کرنے والے نوجوانوں کی طرح پولیس اور انتظامیہ اور حتٰی کے وقار کے اپنے عتاب کا بھی نشانہ بنتا ہے ـ
۱۰ ـ وقار کے ساتھیوں کا ماننا ہے کہ وقار ہی اس قوم کا مسیحا و ملجا ہے ـ اس کے علاوہ اگر کوئی وقار کو ایک مخصوص حد سے زیادہ تکریم دے مثلاً یہی کہ ڈیڈی وغیرہ بول دے تو وقار اس کی نسلوں بھی سنوار دیتا ہے، کبھی اپنی عمر لگنے کی دعا بھی دیتا ہے اور کبھی تبدیلی کا نشان بھی بنا دیتا ہے ـ
اتنی ساری خوبیوں اور قوتوں کے باوجود وقار کی ایک بہت بڑی کمزوری ہے کہ وقار مجروح (زخمی) بہت جلدی ہو جاتا ہے لیکن یہ مجروح، سلطان پوری کی طرح نہیں ہوتا کہ دکھی گیت مالا جنم لے لے بلکہ یہ مجروح ایسے ہوتا ہے کہ مجروح کرنے والے کو نہ صرف لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں بلکہ اکثر اپنی اوقات کے ساتھ ساتھ نانی بھی یاد آ جاتی ہے ـ اب واپس آتے ہیں کھیل کی طرف اور کھیل میں بھی کرکٹ کی طرف کیونکہ پوری قوم کی طرح وقار کو بھی کرکٹ میں خصوصی دلچسپی ہے اور یہ اپنے آپ کو اس کھیل کا بہترین بلے باز، گیند باز، کیپر، فیلڈر، کوچ اور فزیو سمجھتا ہے اور اسی لئے بار بار مجروح بھی ہو جاتا ہے ـ
وقار کی ڈومیسٹک مخالفین کے خلاف کارکردگی تو بلاشبہ بہت تباہ کن ہے مگر جب بھی بین الاقوامی سطح پر کوئی کڑا مقابلہ ہوا ہے تو سچن، رمیش، ٹنڈولکر، اجے اور جدیجہ وغیرہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر وقار کی خوب دھلائی کی ہے لیکن وقار اس کا موردِ الزام بھی دوسروں کو ہی ٹھہراتا ہے ـ
ان تمام حقائق کی روشنی میں ہم نے  یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وقار کو مجروح ہونے سے بچانے کے لئے ہمیں اس کا انضمام احتیاط سے انتحاب کر کے تنویر اور توقیر کے ساتھ کرنا چاہیے ـ شاید اسی کے اعجاز، سلامتی کی مشتاق یہ قوم جاوید ہو جائے اور اس کا افتخار (انجم) بحال ہو اور کوئی خوشی کی نوید ملے اور ایک نیا عمرانی معاہدہ ترتیب پائے اور وقار بار بار مجروح نہ ہو کر ریاست کو استحکام سے نواز دے ـ

منگل، 15 اپریل، 2014

بھوکی لڑکی

حرفوں کا آٹا گوندھتی وہ لڑکی
ملاتی ہے محبت کا پانی اس میں
چاہت کی مٹھیاں لگاتی ہے
اور
آس کے چولہے پہ، نراش کے توے پر
لفظوں کی گول روٹیاں بناتی ہے
گول روٹیاں، جو پیار کے گھی سے تر ہیں
جو بہترین پکوانوں سے برتر ہیں
جذبوں کی دھیمی سلگتی آنچ پہ تیار روٹیاں
تمام اہل کو کھلاتی ہے
اور خود اکثر بھوکی رہتی ہے

جمعہ، 28 مارچ، 2014

لشکرِ جھنگوی کا بلاول کو خط


سب سے پہلے تو یہ واضح کر دینا لازم ہے کہ مجھے القاعدہ، طالبان، لشکرِ جھنگوی اور سپاہِ محمد وغیرہ کسی بھی دہشت گرد جماعت سے کسی بھی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں ہے ـ اس وضاحت کے بعد آگے بڑھتے ہوئے، بلاول زرداری کو لشکرِ جھنگوی کی طرف سے ملنے والے مبینہ دھمکی آمیز خط کی طرف چلتے ہیں ـ
دو ہزار تیرہ کے انتحابات کے بعد پیپلزپارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور اس وقت صوبہ میں ان ہی کی حکومت ہے ـ کارکردگی ایسی بے مثال کہ آسمان بھی محوِ حیرت ہے کہ یہ کیسی حکومت ہے ـ کراچی میں قتل و غارت ہی کم نہ تھی کہ تھر میں بدانتظامی کی انتہا کے باعث پیدا شدہ قحط کی وجہ سے سینکڑوں معصوم جانوں کے ضیاع نے بھی چنری کو مزید داغدار کر دیا ـ
ابھی ان جاں بحق ہونے والوں کی قبروں کی مٹی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ سابقہ صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری نے سوئس بینکوں میں موجود بینظیربھٹو کے لاکھوں ڈالر کے مالیت کے زیورات کا بھی مطالبہ کر کے تھر اور کراچی کے مظلومین کے لواحقین کے زخموں پر خوب نمک چھڑکا ـ یاد رہے کہ ان زیورات کے بارے میں بینظیربھٹو انکار کر چکی ہیں کہ یہ ان کی ملکیت ہیں یا ان سے ان کا کسی قسم کا کوئی تعلق ہے ـ کچھ اسی قسم کا معاملہ ماضی کے مشہور سکینڈل سرے محل کا بھی تھا جس کی ملکیت سے پہلے انکار کیا گیا مگر بعد میں اس کو ملکیت تسلیم کیا گیا ـ اگر کسی کو اس بارے میں کسی قسم کا کوئی ابہام ہو تو وہ بی بی سی پہ اس بارے موجود خبریں دیکھ سکتا ہے ـ
اس "شاندار کارکردگی" کے باعث پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا گراف تیزی سے آسمانوں سے بھی بلند ہو رہا تھا اور میڈیا بھی پیپلزپارٹی سے ایسے سوال پوچھ رہا تھا جن کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ـ سندھی عوام بھی پیپلزپارٹی سے بدظن ہونے کی آخری حدود کو چھو رہی تھی ـ تو ایسے صورتحال میں ان معاملات سے توجہ ہٹانے اور ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے کچھ تو چاہیے تھا ـ
تو اچانک ایسے میں لشکرِ جھنگوی کی طرف سے بلاول زرداری کو دھمکی آمیز خط ملتا ہے اور اس کا موردِ الزام پنجاب حکومت اور شریف برادران کو ٹھہرانے کی دانستہ کوشش کی جاتی ہے ـ یہاں ایک اہم چیز، اس مبینہ خط کا لشکرِ جھنگوی کی طرف سے ہونا ہے طالبان یا کسی دوسری ایسی جماعت کی طرف سے نہیں ـ اس ضمن میں شاید پنجاب حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا زیادہ آسان اس لیے ہے کہ پنجاب حکومت کے اہم ترین وزیر رانا ثناءاﷲ کی مولانا محمد احمد لدھیانوی کے ساتھ روابط اور تصاویر ہیں ـ اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ لدھیانوی صاحب کی جماعت کو پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے دور میں کالعدم کیوں قرار نہیں دیا اور ان صاحب کو گرفتار کر کے قانون کی عدالت میں پیش کیوں نہ کیا؟ ایک اور اہم بات یہ کہ شریف برادران کی اگر لشکرِ جھنگوی کے ساتھ محبت ہے اور وہ ان کی سرپرستی بھی کرتے ہیں تو سبزہ زار پولیس مقابلہ کیا ہے اور اس کا مقدمہ کس کے خلاف ہے؟
اب پنجاب حکومت کو موردِ الزام ٹھہرا کر سندھ کارڈ کھیلا جائے گا، معصوم سندھی عوام کی ہمدردیاں بٹوری جائیں گی اور سندھ حکومت کی شاندار کارکردگی کو جاری رکھا جائے گا ـ
آخر میں بلاول زرداری کے لیے دعا ہے کہ اللہ ان کی زندگی کو محفوظ رکھے، وہ اپنے خاندان کا اثاثہ اور زرداری قبیلے کے سردار ہیں اور ان سے استدعا ہے کہ براہِ کرم اپنی توجہ اپنی پارٹی کی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے کی طرف کریں تاکہ عوام کی زندگیاں بھی محفوظ رہ سکیں ـ

بدھ، 22 جنوری، 2014

طالبان اور ریاستِ پاکستان

پچھلی دو دہائیوں میں ریاستِ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ کسی بیرونی ریاست یا دشمن سے نہیں بلکہ ایک ایسی دہشت گرد تنظیم سے ہے جس کی پرورش میں ریاست کا اپنا اہم کردار ہے ـ یہ تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے نام سے جانی جاتی ہے ـ
بظاہر طالبان کا مطالبہ، ملک میں شریعت کا نفاذ ہے لیکن دراصل یہ اس مخصوص مکتبہء فکر کی سوچ کو ملک پر لاگو کرنا چاہتے ہیں جس کے یہ پیروکار ہیں ـ اگر ان کو نفاذِ شریعت میں دلچسپی ہوتی تو یہ دوسرے فرقوں اور مذہبی اکائیوں کے خلاف ایسی دہشت گردانہ کاروائیاں ہر گز نہ کرتے جس سے ان کے نہتے مرد، عورت، بچے اور بوڑھے مارے جاتے کیونکہ اسلام کسی بھی حالت میں نہتے لوگوں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا ـ
ریاست کے خلاف اس جنگ یا بغاوت میں طالبان کا سب سے خطرناک ہتھیار وہ خودکش حملہ آور ہیں جو کسی بھی عوامی اجتماع یا جگہ یا کسی بھی عسکری تنصیب یا شضصیت/شخصیات جو کہ ان کا نشانہ ہو پر پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیتے ہیں ـ اس طریقہ کار کی مثال ماضی میں حسن بن صباح کے پیروکار ان قاتلوں سے دی جا سکتی ہے جو کہ تاریخ میں حشیشن کے نام سے جانے جاتے ہیں اور وہ ابنِ صباح کے احکامات بجا لانے کے لیے کسی بھی شضصیت کو قتل کر دیتے تھے خواہ ان کی اپنی جان چلی جائے ـ وہ یہ سب اس لیے کرتے تھے کہ ابنِ صباح نے انہیں  نہ صرف بہشت کی بشارت دی ہوتی تھی بلکہ مشن پر نکلنے سے پہلے قلعہ الموت میں بنائی گئی جنت کی سیر بھی کروائی جاتی تھی اور بتایا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد تم یہاں آؤ گے ـ اس خودساختہ جنت میں انہیں دنیا جہان کی نعمتیں پیش کی جاتیں تھیں جن میں مخصوص تربیت یافتہ دوشیزائیں بھی شامل ہوتی تھیں جو کہ ان پیروکاروں کے حواس کو یوں قابو کرتی تھیں کہ وہ جنت سے نکلنے کے بعد واپسی کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار ہوتے تھے ـ ان قاتلوں نے اس وقت کی ریاستوں کو شدید نقصان پہنچایا اور عباسی خلافت کے زوال میں بہت اہم کردار کیا ـ بعض ذرائع کے مطابق موجودہ طالبان بھی اپنے خودکش حملہ آوروں کے اذہان کو قابو کرنے کے لیے ابنِ صباح جیسے ہتھکنڈے ہی استعمال کرتے ہیں جن میں منشیات سے لیکر کر جنس تک شامل ہیں ـ
ان طالبان کے خلاف کاروائی کے لیے پاکستانی معاشرہ واضح طور پر تین گروہوں میں تقسیم ہے ـ ایک گروہ جو کہ غالب مگر خاموش اکثریت ہے طالبان کے خلاف مکمل عسکری قوت کو برؤے کار لاکر ان کے خاتمے کا حامی ہے ـ دوسرا گروہ جو کہ تعداد میں کم ہے وہ کچھ وجوہات کی بنا پر ان سے مذاکرات کرنے کا حامی ہے اور مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں عسکری حل کی بات کرتا ہے ـ تیسرا گروہ جو کہ واضح اقلیت میں ہے طالبانی سوچ و نکتہء نظر کا حامی ہے ـ یہ گروہ طالبان کو حق پر سمجھتا ہے اور ان کی مالی، اخلاقی اور کسی بھی ممکن ذرائع سے ان کی امداد کرتا ہے ـ
کچھ اسی قسم کی تقسیم حسن بھی صباح کے دور میں بھی تھی ـ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تماتر ریاستیں ان اندرونی اختلافات کے باعث اس گروہ کو ختم کرنے میں ناکام رہیں اور کمزور ہو کر رفتہ رفتہ صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں ـ اس گروہ کو ختم کرنے کے لیے پھر منگول حکمران ہلاکو خان کی آمد ہوئی اور اس نے بغداد کی عباسی خلافت کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ قلعہ الموت کو بھی زیر کر کے اس گروہ کا خاتمہ کیا ـ
موجودہ حالات میں ریاستِ پاکستان اور پاکستانی عوام کے سامنے بھی دو راستے ہیں ـ ایک تو یہ کہ تاریخ کو دہراتے ہوئے منقسم رہیں اور کسی ہلاکو خان کی آمد کا انتظار کریں جو اس گروہ کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں ویسی ہی خون کی ندیاں بہائے جیسی ہلاکو نے بغداد میں بہائی تھیں یا پھر یہ کہ قوم و ریاست متحد اور یکسو ہو کر اس گروہ کا خود خاتمہ کرے تاکہ کسی بھی ہلاکو کو نہ آنا پڑے ـ  

جمعہ، 10 جنوری، 2014

مجھے اپنا مذاق اڑانا چاہیے

مجھے اپنا مذاق اڑانا چاہیے
بہت میں آگئی ہے مجھ میں
کچھ عرصہ تو ساون بھادوں چلے
کوئی بدلی چھا گئی ہے مجھ میں
بہت چلاتا ہوں میں شب و روز
بہت خامشی چھا گئی ہے مجھ میں
اس الم کو چنے گا کرہء فال؟
بے یقینی سی آ گئی ہے مجھ میں
تعلق توڑوں تو توڑ دیتا ہوں
کیسی انتہا آ گئی ہے مجھ میں
محکم ہوں اپنی فنا کے امر پر
یہ کیسی بقا آگئی ہے مجھ میں