جمعہ، 27 نومبر، 2020

عمروعیار اور الزام جادوگر

افراسیاب اپنے تخت پر بہت پریشان بیٹھا تھا۔ اس کے پہلو میں ملکہ حیرت بھی حیرت کے عالم میں گم سم بیٹھی تھی۔ دربار میں مرگ کا سا عالم تھا۔ عمرو عیار کے ہاتھوں پےدرپے شکستوں اور بڑے بڑے نامی گرامی جادوگروں جن میں سامری جادوگر کا پوتا مصور جادوگر اور جمشید جادوگر کا نواسا خمار جادوگر بھی شامل تھے کی موت کے بعد افراسیاب اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔ وہ اس حد تک پاگل ہو چکا تھا کہ اس نے اپنے وزیر باتدبیر باغبان جادوگر اور صرصر عیارہ کو بھی دھکے دیکر دربار سے نکلوا دیا تھا اور انکی واپسی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ اگر عمرو عیار کا مستقل حل ڈھونڈے بغیر دربار میں واپس آئے تو افراسیاب انہیں خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرے گا۔
دربار سے نکلنے کے بعد باغبان جادو اور صرصر عیارہ پریشان حال پھر رہے تھے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ عمرو عیار جیسی بلا سے وہ کیسے نمٹیں گے جس کے آگے شہنشاہِ طلسم تو کیا خداوند لقا باختری بھی بےبس ہے۔ اچانک صرصر عیارہ کو ایک خیال سوجھا اور وہ کہنے لگی کہ عمرو بھی انسان ہے تو کیوں نہ انسانوں کے درمیان جا کر کسی ایسے شخص کو ڈھونڈا جائے جو عمرو عیار ہی کی طرح مکار ہو۔ باغبان جادو کو بھی یہ خیال پسند آیا اور وہ دونوں فوراً جادو کے زور سے غائب ہو کر انسانی دنیا میں چلے آئے۔ یہاں انہوں نے لوگوں سے کسی ایسے شخص کے بارے میں پوچھنا شروع کیا جو عمرو ہی کی طرح عیار ہو اور دشمنوں کو زچ کر کے رکھتا ہو۔ ان کی بات سن کر ایک بوڑھے نے کہا کہ ایسا کوئی انسان نہیں لیکن ملک کے دارلحکومت کے دامنِ کوہ میں ایک جادوگر، جس کا نام الزام جادو ہے، نے اپنا طلسم بنایا ہوا ہے، وہ اتنا عیار مکار ہے کہ وہ عمرو کو ایسے شکست دے گا کہ عمرو کو نانی یاد آ جائے گی۔
اس بوڑھے سے راستہ پوچھنے کے بعد وہ اس طلسم کی طرف روانہ ہوئے۔ جادو کے زور پر انہوں نے گھنٹوں کا فاصلہ منٹوں میں طے کیا۔ ابھی وہ طلسم کی حدود سے کافی دور ہی تھے کہ اچانک ان کے کان تیز موسیقی سے پھٹنے لگے اور ساتھ ہی کوئی گلوکار اس جادوگر کی تعریف میں گیت گانے لگا، تیز موسیقی کے ساتھ اس گلوکار کی آواز یوں لگ رہی تھی جیسے وہ ماتم کر رہا ہو۔ گانے کے بول کچھ یوں تھے؛

جب لگائے گا الزام
وہ صبح سے لیکر شام
کرے گا سب کا جینا حرام

ابھی وہ دونوں اس موسیقی سے ہی پریشان تھے کہ اچانک کئی بھتنیاں اور بھتنے ان کے اردگرد ناچنے لگے۔ وہ ناچتے ہوئے ان دونوں کو گندی گندی گالیاں بھی دے رہے تھے اور ساتھ کہہ رہے تھے کہ تم دونوں بِک چکے ہو۔ تم دونوں ملکہ مہ جبین اور ملکہ بہار سے لفافے لیتے ہو۔ یہ سنتے ہی باغبان جادو اور صرصر عیارہ سٹپٹا کر رہ گئے۔ گالیاں اور طعنے سہتے، الم غلم موسیقی اور ماتم زدہ گلوکار کے گانے کو برداشت کرتے وہ طلسم کی حدود میں داخل ہوئے تو اچانک دروغۂ طلسم نمودار ہوا اور صرصر عیارہ کو گندے اشارے کرنے کے بعد بولا، شہنشاہ طلسم تک پہنچنے کا راستہ میرے کمرے سے ہو کر جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ صرصر کچھ کہتی باغبان جادو بولا، بسروچشم چلیے، میں آپ ہی کی وساطت سے شہنشاہِ طلسم سے مل لیتا ہوں، صرصر یہیں انتظار کر لیتی ہے۔ یہ سن کر دروغہ کھسیانا ہو گیا اور کہنے لگا کہ میں تم لوگوں کا امتحان لے رہا تھا کیونکہ شہنشاہ سے صرف وہی لوگ مل سکتے ہیں جو کردار کے مضبوط ہوں لیکن ایک بات یاد رکھنا، شہنشاہ الزام جادو بہت نازک طبع ہیں، ان سے بحث نہ کرنا اور ان کی ہاں میں ہاں ملانا تمہارا کام ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر دروغہ انہیں لے کر دربار خاص کی طرف روانہ ہو گیا۔
یہ لوگ دربار میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عجیب و غریب ہونق قسم کا بوڑھا جس کے چہرے پہ لعنت اور پھٹکار برس رہی ہے، اپنے چہرے پر مسلسل ٹیکے لگا رہا ہے اور اس نے اپنے پاس ہی تارکول کا ڈرم رکھا ہوا ہے اور ہر تھوڑی دیر بعد اپنا سر اس ڈرم میں ڈبو کر اپنے بال کالے کرتا ہے، پھر کاغذ پر کوئی سفید سا سفوف رکھ کر ناک کے ذریعے اندر کھینچتا اور پھر آئینہ اٹھا کر آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر “ابھی تو میں جوان ہوں” گنگنانے لگتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ بوڑھا ان دونوں کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ کس لیے آئے ہو۔ دونوں نے اپنی مشکل بیان کی۔ ان کی بات سن کر الزام جادو نے دروغۂ طلسم کی طرف اشارہ کیا۔ دروغۂ طلسم فوراً ان کو مخاطب کر کے کہنے لگا شہنشاہ پوچھ رہے ہیں کہ بھینٹ کے لیے کیا لائے ہو؟ باغبان جادو نے فوراً دل میں منتر پڑھ کر اپنے بھیروں سے معلوم کیا کہ الزام جادو کو کیا پسند ہے؟ بھیروں نے بتایا کہ الزام جادو ہر کس و ناکس سے بھینٹ میں چندہ اور مسلمانوں سے زکوٰۃ لیتا ہے۔ یہ اتنا مکار ہے کہ مسلمانوں کے درمیان مسلمان بن کر رہتا ہے مگر اپنی منافقت سے انہیں احساس بھی نہیں ہونے دیتا کہ یہ ان کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔ بہت سے سادہ لوح مسلمان اس کے چنگل میں پھنس کر بھتنیاں اور بھتنے بن چکے ہیں۔ باغبان جادو نے بھیروں سے کہا کہ مجھے الزام جادو کی سب سے بڑی خواہش بتاؤ میں وہ پوری کرنے کی کوشش کرتا ہوں، شاید اسی طرح عمرو سے جان چھوٹ جائے۔ بھیروں نے عرض کی کہ الزام جادو کو ایک مخصوص کرسی چاہیے، اس کرسی کو پانے کے لیے یہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ باغبان جادو نے منتر پڑھا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ کرسی الزام جادو کو نہیں مل سکتی، کئی مسلمان بزرگوں نے دعا کر رکھی ہے کہ اس کرسی پر کوئی ایسا شخص نہ بیٹھے جس کی زبان کی گندگی سے کوئی بھی محفوظ نہ ہو۔ یہ کرسی مسلمان بزرگوں کی دعا کی بدولت صرف اس مسلمان ملک کے حکمران کے تصرف میں آ سکتی تھی۔ یہ جان کر باغبان بہت دکھی ہوا لیکن اس نے منتر پڑھ کر اس کرسی کی ایک نقل منگوا لی اور اس کرسی پر بیٹھنے والا شخص جس قسم کی شیروانی زیب تن کرتا ہے، ویسی ہی شیروانی بھی منگوا لی۔ یہ دونوں چیزیں دیکھ کر الزام جادو کی باچھیں کھل گئیں اور وہ فوراً چھلانگ مار کر کرسی پہ بیٹھ گیا اور الٹی شیروانی پہن کر کہنے لگا، تم نے میرا دل خوش کر دیا ہے، میں عمرو کا وہ حشر کروں گا کہ دنیا یاد کرے گی۔