جمعہ، 27 نومبر، 2020

عمروعیار اور الزام جادوگر

افراسیاب اپنے تخت پر بہت پریشان بیٹھا تھا۔ اس کے پہلو میں ملکہ حیرت بھی حیرت کے عالم میں گم سم بیٹھی تھی۔ دربار میں مرگ کا سا عالم تھا۔ عمرو عیار کے ہاتھوں پےدرپے شکستوں اور بڑے بڑے نامی گرامی جادوگروں جن میں سامری جادوگر کا پوتا مصور جادوگر اور جمشید جادوگر کا نواسا خمار جادوگر بھی شامل تھے کی موت کے بعد افراسیاب اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔ وہ اس حد تک پاگل ہو چکا تھا کہ اس نے اپنے وزیر باتدبیر باغبان جادوگر اور صرصر عیارہ کو بھی دھکے دیکر دربار سے نکلوا دیا تھا اور انکی واپسی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ اگر عمرو عیار کا مستقل حل ڈھونڈے بغیر دربار میں واپس آئے تو افراسیاب انہیں خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرے گا۔
دربار سے نکلنے کے بعد باغبان جادو اور صرصر عیارہ پریشان حال پھر رہے تھے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ عمرو عیار جیسی بلا سے وہ کیسے نمٹیں گے جس کے آگے شہنشاہِ طلسم تو کیا خداوند لقا باختری بھی بےبس ہے۔ اچانک صرصر عیارہ کو ایک خیال سوجھا اور وہ کہنے لگی کہ عمرو بھی انسان ہے تو کیوں نہ انسانوں کے درمیان جا کر کسی ایسے شخص کو ڈھونڈا جائے جو عمرو عیار ہی کی طرح مکار ہو۔ باغبان جادو کو بھی یہ خیال پسند آیا اور وہ دونوں فوراً جادو کے زور سے غائب ہو کر انسانی دنیا میں چلے آئے۔ یہاں انہوں نے لوگوں سے کسی ایسے شخص کے بارے میں پوچھنا شروع کیا جو عمرو ہی کی طرح عیار ہو اور دشمنوں کو زچ کر کے رکھتا ہو۔ ان کی بات سن کر ایک بوڑھے نے کہا کہ ایسا کوئی انسان نہیں لیکن ملک کے دارلحکومت کے دامنِ کوہ میں ایک جادوگر، جس کا نام الزام جادو ہے، نے اپنا طلسم بنایا ہوا ہے، وہ اتنا عیار مکار ہے کہ وہ عمرو کو ایسے شکست دے گا کہ عمرو کو نانی یاد آ جائے گی۔
اس بوڑھے سے راستہ پوچھنے کے بعد وہ اس طلسم کی طرف روانہ ہوئے۔ جادو کے زور پر انہوں نے گھنٹوں کا فاصلہ منٹوں میں طے کیا۔ ابھی وہ طلسم کی حدود سے کافی دور ہی تھے کہ اچانک ان کے کان تیز موسیقی سے پھٹنے لگے اور ساتھ ہی کوئی گلوکار اس جادوگر کی تعریف میں گیت گانے لگا، تیز موسیقی کے ساتھ اس گلوکار کی آواز یوں لگ رہی تھی جیسے وہ ماتم کر رہا ہو۔ گانے کے بول کچھ یوں تھے؛

جب لگائے گا الزام
وہ صبح سے لیکر شام
کرے گا سب کا جینا حرام

ابھی وہ دونوں اس موسیقی سے ہی پریشان تھے کہ اچانک کئی بھتنیاں اور بھتنے ان کے اردگرد ناچنے لگے۔ وہ ناچتے ہوئے ان دونوں کو گندی گندی گالیاں بھی دے رہے تھے اور ساتھ کہہ رہے تھے کہ تم دونوں بِک چکے ہو۔ تم دونوں ملکہ مہ جبین اور ملکہ بہار سے لفافے لیتے ہو۔ یہ سنتے ہی باغبان جادو اور صرصر عیارہ سٹپٹا کر رہ گئے۔ گالیاں اور طعنے سہتے، الم غلم موسیقی اور ماتم زدہ گلوکار کے گانے کو برداشت کرتے وہ طلسم کی حدود میں داخل ہوئے تو اچانک دروغۂ طلسم نمودار ہوا اور صرصر عیارہ کو گندے اشارے کرنے کے بعد بولا، شہنشاہ طلسم تک پہنچنے کا راستہ میرے کمرے سے ہو کر جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ صرصر کچھ کہتی باغبان جادو بولا، بسروچشم چلیے، میں آپ ہی کی وساطت سے شہنشاہِ طلسم سے مل لیتا ہوں، صرصر یہیں انتظار کر لیتی ہے۔ یہ سن کر دروغہ کھسیانا ہو گیا اور کہنے لگا کہ میں تم لوگوں کا امتحان لے رہا تھا کیونکہ شہنشاہ سے صرف وہی لوگ مل سکتے ہیں جو کردار کے مضبوط ہوں لیکن ایک بات یاد رکھنا، شہنشاہ الزام جادو بہت نازک طبع ہیں، ان سے بحث نہ کرنا اور ان کی ہاں میں ہاں ملانا تمہارا کام ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر دروغہ انہیں لے کر دربار خاص کی طرف روانہ ہو گیا۔
یہ لوگ دربار میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عجیب و غریب ہونق قسم کا بوڑھا جس کے چہرے پہ لعنت اور پھٹکار برس رہی ہے، اپنے چہرے پر مسلسل ٹیکے لگا رہا ہے اور اس نے اپنے پاس ہی تارکول کا ڈرم رکھا ہوا ہے اور ہر تھوڑی دیر بعد اپنا سر اس ڈرم میں ڈبو کر اپنے بال کالے کرتا ہے، پھر کاغذ پر کوئی سفید سا سفوف رکھ کر ناک کے ذریعے اندر کھینچتا اور پھر آئینہ اٹھا کر آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر “ابھی تو میں جوان ہوں” گنگنانے لگتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ بوڑھا ان دونوں کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ کس لیے آئے ہو۔ دونوں نے اپنی مشکل بیان کی۔ ان کی بات سن کر الزام جادو نے دروغۂ طلسم کی طرف اشارہ کیا۔ دروغۂ طلسم فوراً ان کو مخاطب کر کے کہنے لگا شہنشاہ پوچھ رہے ہیں کہ بھینٹ کے لیے کیا لائے ہو؟ باغبان جادو نے فوراً دل میں منتر پڑھ کر اپنے بھیروں سے معلوم کیا کہ الزام جادو کو کیا پسند ہے؟ بھیروں نے بتایا کہ الزام جادو ہر کس و ناکس سے بھینٹ میں چندہ اور مسلمانوں سے زکوٰۃ لیتا ہے۔ یہ اتنا مکار ہے کہ مسلمانوں کے درمیان مسلمان بن کر رہتا ہے مگر اپنی منافقت سے انہیں احساس بھی نہیں ہونے دیتا کہ یہ ان کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔ بہت سے سادہ لوح مسلمان اس کے چنگل میں پھنس کر بھتنیاں اور بھتنے بن چکے ہیں۔ باغبان جادو نے بھیروں سے کہا کہ مجھے الزام جادو کی سب سے بڑی خواہش بتاؤ میں وہ پوری کرنے کی کوشش کرتا ہوں، شاید اسی طرح عمرو سے جان چھوٹ جائے۔ بھیروں نے عرض کی کہ الزام جادو کو ایک مخصوص کرسی چاہیے، اس کرسی کو پانے کے لیے یہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ باغبان جادو نے منتر پڑھا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ کرسی الزام جادو کو نہیں مل سکتی، کئی مسلمان بزرگوں نے دعا کر رکھی ہے کہ اس کرسی پر کوئی ایسا شخص نہ بیٹھے جس کی زبان کی گندگی سے کوئی بھی محفوظ نہ ہو۔ یہ کرسی مسلمان بزرگوں کی دعا کی بدولت صرف اس مسلمان ملک کے حکمران کے تصرف میں آ سکتی تھی۔ یہ جان کر باغبان بہت دکھی ہوا لیکن اس نے منتر پڑھ کر اس کرسی کی ایک نقل منگوا لی اور اس کرسی پر بیٹھنے والا شخص جس قسم کی شیروانی زیب تن کرتا ہے، ویسی ہی شیروانی بھی منگوا لی۔ یہ دونوں چیزیں دیکھ کر الزام جادو کی باچھیں کھل گئیں اور وہ فوراً چھلانگ مار کر کرسی پہ بیٹھ گیا اور الٹی شیروانی پہن کر کہنے لگا، تم نے میرا دل خوش کر دیا ہے، میں عمرو کا وہ حشر کروں گا کہ دنیا یاد کرے گی۔

ہفتہ، 18 اپریل، 2020

شادی ‏کے ‏بعد ‏کیا ‏ہوا ‏تھا۔ ‏ایک ‏ایسی ‏کہانی ‏جو ‏کسی ‏ڈائجسٹ ‏میں ‏نہیں ‏چھپ ‏سکتی۔

امامہ اور سالار نئے نئے اس شہر میں شفٹ ہوئے تھے۔ سالار کو اپنے ادارے کی وساطت سے شہر کے ایک پوش علاقے میں بنگلہ ملا، مگر امامہ نے کہا کہ ان پوش علاقوں میں کسی سے ملنا جلنا تو ہوتا نہیں، اس لیے وہ بور ہو جائے گی۔ سالار نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ اس مکان کا کرایہ نہیں ادا کرنا پڑے گا اور اگر کسی دوسری جگہ گھر لیا تو کرائے کا خرچہ جیب سے دینا پڑے گا، مگر وہ بیوی ہی کیا جو اپنی نہ منوائے۔ سو امامہ نے سر باندھ لیا، منہ سجا لیا اور سالار سے بات چیت بند کر دی۔ سالار نے منانے کی کوشش کی تو امامہ نے رونا شروع کر دیا۔ "میں تو آپ سے شادی کر کے پھنس گئی، اتنے اچھے اچھے رشتے آتے تھے میرے، مگر میری ہی مت ماری گئی تھی۔ جب سے شادی ہوئی ہے، میں نے تو اس گھر میں کوئی خوشی نہیں دیکھی۔ پہلے تمہاری ماں  اور بہن بھائیوں نے زندگی عذاب کیے رکھی، ان کی خدمتیں کر کر کے اپنی صحت تباہ کی اور اب تم یہاں لا کر مجھے اکیلا قید کر دینا چاہتے ہو‌۔" امامہ روتے ہوئے جو بولنا شروع ہوئی تو بولتی ہی چلی گئی۔ "مگر میری امی تو ہماری شادی سے پہلے ہی فوت ہو گئی تھیں اور میں اکلوتا ہوں۔" سالار کنفیوژ ہو کر بولا۔ "ہاں ہاں، اب تم میری چھوٹی چھوٹی باتیں پکڑو گے، اپنے ظلم نہیں دیکھو گے" امامہ بولی، "وہ جو تمہاری پھپھو اور خالہ ہیں، وہ کسی ساس سے کم ہیں اور اُن کے بچے، توبہ توبہ، ہزار نندوں اور دیوروں کے برابر ہیں۔" مگر پھپھو تو کبھی ہمارے گھر آئی ہی نہیں اور خالہ بھی صرف ہمارے ولیمے پر آئی تھیں اور دونوں کے بچوں سے ابھی تک تم ملی بھی نہیں" سالار ایک بار اختلاف کی جرأت کر بیٹھا۔ 

"ہاں ہاں، اپنے رشتے داروں کے دفاع کے لیے تو تم آگ میں بھی اتر جاؤ گے، مگر مجھ پر ظلم کرنے سے باز نہیں آؤ گے۔ اچھا بھلا میں نے عمیرہ سے کہا تھا، میری سالار سے شادی نہ کروانا، اگر وہ تھوڑی کوشش کرتی تو میری شادی جلال انصر سے ہو جاتی، سب کچھ عمیرہ کے ہاتھ میں تھا۔ مگر اسے تم ہیرو لگتے تھے، کہتی تھی سالار جیسا کوئی نہیں۔ میں نے اسے سمجھایا بھی تھا کہ سالار نہیں، جسی جیسا کوئی نہیں، مگر اس نے مجھے اس دوزخ میں پھنسا دیا۔" امامہ کہاں رکنے والی تھی۔ 

"اچھا بابا اچھا، میں آج ہی پراپرٹی ڈیلر سے کہہ دیتا ہوں، وہ تمہاری پسند کے مطابق مکان ڈھونڈ لے گا۔ تم جا کر دیکھ کر فائنل کر آنا۔" سالار نے ہار مانتے ہوئے کہا۔

"آپ کتنے اچھے ہیں ناں" امامہ اٹھلائی، "ٹھہریں میں آپ کے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں"۔ یہ کہہ کر وہ اٹھی اور کچن میں آ گئی۔ چائے بناتے ہوئے اس نے امتل کو فون کیا اور خوشخبری سنائی۔ امتل نے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا، آپ اپنے رسالوں کی دنیا میں رہیں، آپ کو اصل دنیا کا کیا پتہ۔ اس کے بعد اس نے نمرہ، عنیزہ، رخسانہ، نگہت، فائزہ اور ثمرہ کو فون کیے اور سب کو بتایا کہ وہ بہت جلد نئے گھر میں شفٹ ہو جائیں گے۔ چائے بنا کر وہ کمرے میں لائی تو سالار سو چکا تھا، اس نے غصے سے چائے خود پی لی اور سونے کے لیے لیٹ گئی۔ وہ سالار کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے اپنی خوشی خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔

اگلے ایک ماہ میں اس نے پراپرٹی ڈیلر کے ساتھ جا کر کئی گھر دیکھے مگر پراپرٹی ڈیلر اسے اس کی مرضی کے مطابق گھر نہیں دکھا رہا تھا۔ کہیں محلہ رش والا تھا اور کسی کالونی میں بالکل خاموشی۔ کسی گھر میں ٹائیلیں لگی ہوئیں تھیں تو کسی گھر میں پرانے انداز کے چپس لگے ہوئے تھے۔ کہیں کی سینٹری فٹنگ امپورٹڈ لگی ہوئی تھی تو کہیں دیسی سامان لگا ہوا تھا۔ کسی گھر کا دروازہ مشرق کی طرف تھا، تو کسی کا مغرب کی طرف، کوئی شمال کی طرف تھا اور کوئی جنوب کی طرف۔ ایک گھر اسے کچھ پسند آیا مگر وہ مارکیٹ کے بالکل پاس تھا، اس نے اسے اس لیے ریجکٹ کر دیا کہ مارکیٹ پاس ہو گی تو ہر وقت شاپنگ پہ جانے کا دل کرے گا اور خرچہ بہت ہو جائے گا پھر اسے جو دوسرا گھر پسند آیا، وہ مارکیٹ سے کافی دور تھا، اسے اس وجہ سے ریجکٹ کر دیا کہ جب شاپنگ پہ جانا ہوا تو آنے جانے میں ہی بہت خرچہ ہو جائے گا۔ تنگ آ کر اس نے گھر بدلنے کا خیال ہی چھوڑ دیا۔ اس نے صبر کرنا سیکھ لیا تھا۔

شام کو سالار کے آنے سے پہلے اس نے اپنی طبیعت بحال رکھنے کے لیے 3,4-Methyl​enedioxy​methamphetamine جسے Ecstasy بھی کہتے ہیں کھائی کیونکہ اسے سالار کی عادت کا پتہ تھا کہ وہ اسے زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ پتہ نہیں، اس کی قسمت ہی خراب تھی کہ اسے سالار جیسا شوہر ملا، ورنہ اُس نے عنیزہ کے کتنے ترلے کیے تھے کہ اس کی شادی فراز سے کروا دے مگر نہیں جی، محترمہ نے فراز کی شادی اسی سے کروانی تھی جس سے وہ پیار کرتا تھا۔ عجیب ہی فلسفہ ہے عنیزہ کا، دل من مسافر من، چلو مسافر تو ایک من کا ہو سکتا ہے مگر دل ایک من کا کیسے ہو سکتا ہے، اس نے سوچا۔ شاید فلسفے وغیرہ میں ہوتا ہو، اسے ویسے بھی یہ فلسفہ، سائینس اور آرٹس کم ہی سمجھ آتے تھے، وہ سیدھی سادھی زندگی گزارنے کی عادی تھی۔ ذہین بہت تھی، اسی لیے MBBS کرنے میں اسے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی تھی۔ سالار گھر آیا تو اس نے سالار سے کہا، کیا تم جانتے ہو 
what's next to ecstasy?

Nothingness .... سالار بولا

نہیں، یہ گھر۔ وہ بولی، اب ہم اسی گھر میں رہیں گے۔ ہمیں بچت کرنی چاہیے۔ کسی دوسری جگہ گھر لیں گے تو کرایہ ہمیں خود اپنی جیب سے دینا پڑے گا۔ ہم کیوں فضول پیسے ضائع کریں اور پوش علاقہ چھوڑ کر کسی ایسے علاقے میں رہیں، جہاں ملنے جلنے والوں کا رش لگا رہے۔ آپ کو تو کچھ احساس ہی نہیں کہ میں گھر کے خرچے کیسے پورے کرتی ہوں۔ میں نہ ہوں تو آپ دو مہینوں میں کنگال ہو جائیں۔ سالار نے سُکھ کا سانس لیا۔

اگلے دن امامہ نے سوچا اب تو یہیں رہنا ہے تو کیوں نہ اپنے پاس پڑوس والوں سے ہی سلام دعا کی جائے۔ تیار ہو کر وہ اپنے پڑوس والے گھر گئی، پڑوس والی بہت اخلاق سے ملی، البتہٰ اُس کا میاں بس ایویں سا تھا، نہ کوئی پرسنالٹی اور نہ کچھ سٹائیل۔ سالار تو اس کے مقابلے میں شہزادہ چارلس لگتا تھا۔ امامہ نے دل میں شکر ادا کیا کہ اس کی شادی سالار سے ہوئی، اس بجو قسم کے نمونے سے نہیں ہوئی۔ پڑوسن نے گلہ کرتے ہوئے کہا، ہم تو سمجھتے تھے کہ آپ کسی سے ملتی جلتی نہیں، اس لیے ہم ذرا آنے میں ہچکچا رہے تھے، لیکن ابھی میں سب گلی والی خواتین کو آپ سے ملواتی ہوں، وہ آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔ یہ کہہ کر اس نے کسی کو فون ملایا، "ہیلو! ہاں رباب، وہ ہماری نئی پڑوسن ہیں ناں، وہ ملنے آئی ہیں۔ تم سب کو لے کر میری طرف آ جاؤ۔" دوسری طرف سے کچھ سننے کے بعد کہنے لگیں، "ہاں ہاں، وہی، جن کے میاں، اپنی شادی سے پہلے کئی بار خودکشی کی کوشش کر چکے ہیں اور جنہیں اس دن کے تم نے پرانے شہر میں کسی اجنبی مرد کے ساتھ گھومتے دیکھا، جو تم کہہ رہی تھیں کہ بوائے فرینڈ لگ رہا تھا اور یہ دونوں کسی خالی گھر کا تالہ کھول کے اندر جا رہے تھے بس تم جلدی سے آ جاؤ، پھر ہم ان سے ان کی کہانی سنتے ہیں، قسم سے مجھے تو ایڈونچر کا سوچ سوچ کے مزہ آ رہا ہے۔"۔ 

وہ سالار کے دوست اور پراپرٹی ڈیلر تھے، میں ان کے ساتھ گھر دیکھنے گئی تھی، میں نے سوچا تھا کہ کیوں نہ ایک مکان خرید کر کرائے پر چڑھا دیں، امامہ نے فوراً بات بنائی۔ خاتون نے امامہ کو شکی نظروں سے دیکھا اور بولیں، یہ بس رباب کی عادت ہے ہر وقت باتیں بناتی رہتی ہے۔ اس سے ذرا محتاط رہنا، منہ پہ بہت اچھی بنتی ہے مگر فطرت کی بالکل کمولیکا ہے۔ ابھی امامہ مزید کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ خواتین کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جو بھی آتی، امامہ اٹھ کر سلام کرتی۔

اس کو بار بار سلام کرتے دیکھ کر ایک خاتون، جن کا نام شہوار بتایا گیا تھا، بولیں، "امامہ! اتنے سلام کر رہی ہو، نئی نئی تو مسلمان نہیں ہوئیں؟" امامہ اس کی طرف پلٹی اور اپنی دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ بولی، "جی، بس عقل آ گئی۔" شہوار، چپ سی ہو کر رہ گئی۔ "احسن آنے والے ہوں گے، میں ان کے کھانے کا بندوبست کر لوں" یہ کہہ کر وہ اٹھی اور باہر نکل گئی۔ اس کے باہر جاتے ہی باقی تمام خواتین نے امامہ کو بتایا کہ کیسے شہوار کو شادی سے پہلے اس کے ہزبینڈ نے اغوا کر لیا تھا اور کیسے یہ جانوروں کی طرح آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں، لیکن لوگوں کے سامنے لیلیٰ مجنوں بنتے ہیں۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد جب تمام غیبتیں ختم ہو گئیں تو تمام خواتین اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں، امامہ بھی واپس گھر آ گئی۔ اسے یہ شہر پسند آنے لگا تھا۔

اگلے دن دوپہر میں جب وہ کھانا بنانے کی تیاری شروع کر رہی تھی، بیس، فاؤنڈیشن، موسچرائزنگ کریم، فریکل کریم، بلیچ کریم، ہلکی سی لپ سٹک، کاجل، سرمہ وغیرہ ابھی اتنا ہی کیا تھا (ہم ٹی وی کے ڈرامے دیکھ کر امامہ نے سیلف گرومنگ بھی سیکھ لی تھی) کہ دروازے کی گھنٹی بجی، یہ بھی ایک پڑوسن ہی نکلی، اپنا نام اس نے رویحا گل بتایا۔ "آپ کیا کرتی ہو رویحا؟" امامہ نے پوچھا، اسے یہ لڑکی قدرے پسند آئی تھی۔ 

I love izmir butt, رویحا نے جواب دیا

I understand you love Izmir, but what?
 امامہ نے انگریزی بہ انگریزی جواب دیا۔

ازمیر میرا منگیتر ہے، رویحا بولی، ویسے آپ کی انگریزی اتنی اچھی نہیں لگ رہی، کہیں آپ نے زمیندار کالج سے تو ایم اے انگلش نہیں کیا ہوا؟

اوہ میں سمجھی آپ ترکی کے شہر ازمیر کی بات کر رہی ہیں اور میں ڈاکٹر ہوں۔ امامہ نے جنرل نالج جھاڑا۔ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے گول روٹی بھی بنانی آتی ہے، وہ اترائی۔

ارے نہیں نہیں۔ ویسے آج کل یہ ڈائجسٹوں نے نے بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے سمجھ ہی نہیں آتی کہ انسان کا نام ہے یا سڑک کا۔ اب دیکھیں ناں، فرانس والوں نے میری ایک دوست کے نام پر اپنی ایک سڑک کا نام رکھ دیا ہے۔ 

کون سی؟ امامہ نے حیران ہو کر پوچھا۔

شانزے لیزے۔ رویحا بولی

اچھا اچھا، امامہ گفتگو ختم کرتے ہوئے بولی۔ اسے شانزے لیزے کا نہیں پتہ تھا۔

وہ رویحا کو ساتھ لے کر کچن میں آ گئی اور کھانا پکانا شروع کر دیا۔ آج آپ کیا پکا رہی ہیں، رویحا نے پوچھا۔ آج میرا  پروگرام steamed rice cooked with chicken, spices & chillies بنانے کا ہے، وہ بولی۔ اچھا، بریانی، وہ امامہ کے سٹائل پر ٹھنڈا پانی گراتے ہو گویا ہوئی۔ 

اتنے میں ایک دو اور خواتین آ گئیں، گپ شپ اور غیبتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو کئی دنوں تک چل سکتا تھا۔ امامہ نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اچانک ایک پڑوسن بولی، آپ میوزک نہیں سنتیں؟ بس تھوڑا بہت، امامہ بولی۔

"آپ نے وہ گانا سنا ہے جس میں سنگر بیلا کے چاؤ اٹھانے کی خواہش کرتا ہے۔ میں نے تو فیصلہ کیا ہے اپنے بھائی کی مہندی پہ اسی گانے پہ ڈانس کروں گی۔ اتنا مزے کا گانا ہے ناں، بیلا چاؤ، چاؤ چاؤ۔ میرے بھائی کو بھی بہت چاؤ ہے بیلا سے شادی کرنے کا، اس کی منگیتر کا نام بیلا ہے ناں۔" وہ رک ہی نہیں رہی تھیں۔ امامہ نے فوراً گوگل کیا تو یہ دیکھ کر اس نے اپنا سر پکڑ لیا کہ یہ اصل میں دوسری جنگ عظیم کے دوران اٹلی کی مزاحمتی فوج کی طرف سے حملہ آوروں کے خلاف ایک انقلابی گانا تھا۔

امامہ مہمانوں کے لیے چائے بنانے اٹھی تو کسی نے ٹی وی آن کر دیا۔ ٹی وی پر خبریں چل رہی تھیں کہ پوری دنیا میں خوفناک وبا پھیلی ہوئی ہے اور اس بیماری کا ابھی تک کوئی علاج نہیں ہے۔ سائنسدانوں نے اس بیماری کو کرونا کا نام دیا تھا۔ امامہ نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنی تعلیم کا فائدہ انسانیت کو پہنچائے، اس نے چائے بناتے ہوئے فوراً دوسرے چولہے پر پانی ابلنے کو رکھا، اس میں لونگ لاچی، ادرک، اجوائن، سبز مرچیں، شہد، لیموں اور تلسی کے پتے ملا دئیے۔ چائے بننے تک کرونا کی ویکسین بھی تیار تھی۔ 

اس نے سالار کو فون کیا کہ کرونا کی وجہ سے وہ قرنطینہ میں جا رہی ہے، اس لیے جب تک وبا ختم نہیں ہوتی، سالار کو گھر آنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنا انتظام کر لے گی۔ ادھر سالار بیچاره فون ہاتھ میں تھامے، ادریس بابر کا یہ شعر دہرا رہا تھا۔

‏‎ہنسی خوشی سبھی رہنے لگے مگر کب تک 
میں پوچھتا ہوں کہانی کے بعد کیا ہوا تھا