اتوار، 5 نومبر، 2017

حقیقت

رات پورے چاند کی تھی
ہوا بھی کچھ سرد تھی
اور تُو مرے ساتھ تھی
اسی عالمِ شوق میں، دیدِ فلک کے ذوق میں
میں بہت دُور نکل گیا
اور "اپنی سمت" چل پڑا
دُور زمیں پہ جو چراغ تھے
مری آرزو کے وہ، دلفریب باغ تھے
اور جب!
آخرِ شب کے چاند نے، مسکرا کہ یوں کہا
ہے دعا یہ دل کی
ساتھ ساتھ رہو سدا
تو اک نوا سنائی دی
اور اس تلخیٔ ایام کی اک جھلک دکھائی دی
ہر طرف ہے کِشت و خوں
زندگی جاں بلب اور چار سُو درد کا فسوں
ہے حاصلِ الفت آزردگی
اور اک مستقل شکستگی
یہ بات کچھ عجیب ہے
جو چاہ طلب ہے وہ غم سے قریب ہے
اور غم کی بات نہ کرو
غم ہے غمِ دوستی
غم ہے غمِ زندگی
غم، غمِ یار بھی ہے
غم، روزگار بھی ہے
اور جب حُسن ہو غمزدہ
تو غم شاہکار بھی ہے
اس نوائے بےصدا نے مجھے خواب سے جگا دیا
رخ زندگی کا نیا اک دکھا دیا
میری آنکھ جو کُھلی تو دیکھا کچھ اور ہی
میں دشت کے اِس پار تھا
تُو ساگر کی اُس اور تھی