اتوار، 31 مئی، 2015

انسان اور تحریکی

انسان اور تحریکی حصہ دوم:

انسان: یار! سنا ہے، تمہاری حکومت نے ANP کے جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین کو گرفتار کر لیا ہے۔
تحریکی: تمہیں نہیں پتہ؟ اس پر قتل کا مقدمہ بنا ہے۔ اس کی یا اس کے گارڈ کی فائرنگ سے ایک بندہ مارا گیا ہے۔
انسان: مگر یار! وہ تو خاصے نستعلیق قسم کے انسان ہیں۔ یاد ہے طالبان نے ان کے بیٹے کو بھی شہید کر دیا تھا؟
تحریکی: اوہ نئیں یار، سب ڈرامے بازی ہے انکی۔ طالبان نے کوئی نہیں مارا اس کے بیٹے کو۔
انسان: لیکن یار طالبان نے پچاس ہزار پاکستانیوں کو شہید کیا ہے۔
تحریکی: اسی وجہ سے ہم نے کہا تھا کہ طالبان کو دفتر بنا دو تاکہ کوئی بندہ مرے تو ہم ان سے پوچھ سکیں کہ آپ نے تو نہیں مارا۔
انسان: یار اگر پچاس ہزار مارنے والوں کے لیے دفتر بنانا ہے تو بیچارے میاں افتخار کو صرف کرسی میز ہی رکھ دو۔
تحریکی: اسی وجہ سے ہم تم انسانوں سے دور رہتے ہیں۔ تبدیلی کے دشمن ہو تم لوگ۔ سونامی کے آگے بند باندھنا چاہتے ہو۔

جمعرات، 28 مئی، 2015

مطالعہ

پڑھو!
پڑھو اپنے رب کے نام سے، جس نے تمہیں پیدا کیا
"مگر اے خالقِ کُل، مالک کُل!
وحی کے سب دروازے بند کرنے کے بعد
اب یہ بھی بتا کہ کیا پڑھوں؟
دین، مذہب ہو چکا
فقہ و فرقہ و مسلک میں ڈھل گیا
جامد فکر، زہر الفاظ و قاتل عمال
بتا میں حرف و لفظ کی حرمت کا پاس کس سے سیکھوں
اچھا! یہ نہیں بتانا تو یہ ہی بتا دے
کہ یہ نہ پڑھوں تو کیا پڑھوں؟
لادینیت و الحاد پڑھوں؟
کہ سڑے ہوئے نقاد پڑھوں؟
انتشار پھیلاتے نظریات پڑھوں
چڑھتے سورج کو رات پڑھوں؟"
پڑھو!
پڑھو اپنے رب کے نام سے
جس نے چاند ستاروں کو تمہارے لیے مسخر کیا
پڑھو! اُس کے نام سے جس نے تمہیں بہترین نمونے پہ پیدا کیا
۔
نوٹ: یہ شاید نظم نہیں ہے، یا ہے۔ میرے خیال میں جو آیا، جیسے آیا لکھ دیا۔

منگل، 26 مئی، 2015

پہاڑ

کبھی اِک دور ہوتا ہے
شہنشاہ کی دُھوم ہوتی ہے
شہنشاہ کا اقبال بلند ہے
شہنشاہ کا اقبال بلند رہے
چار سُو یہ شور ہوتا ہے
اور تخت و تاج کے بوجھ تلے
دبے بُوزنے مالکِ کُن کہلاتے ہیں
شہر جلتے رہیں، لوگ مرتے رہیں
یہ راگ و نغمہ کی تانیں اڑاتے ہیں
سپاہ و سپر و تِیر و تفنگ
ان کے اشارۂ ابرو پہ جامد
تو جبیں کی شکن پہ قہر بن کر
حیات و موت کے درمیاں کے
لطیف پردے چاک کرتے ہیں
مگر!
اِک وقت ایسا بھی مقرر ہے شعور کی بیداری کا
رعونت سے کھڑے
پہاڑ بن کے سینۂ آدمیت میں گڑے
روئی کی گالوں کی طرح بےآسرا
اڑتے اڑتے ببولوں پہ دم توڑ دیتے ہیں

جمعہ، 22 مئی، 2015

قائدِ ثانی

آج مجھے جس موضوع پر قلم اٹھانے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے، اس پر کوئی تحریر رقم کرنا اعزاز سے کم کی بات نہیں۔ کوئی کوئی خوش نصیب ہوتا ہے جسے یہ سعادت مل جائے۔ آج قسمت نے میرا انتخاب جناب حضرت "قائدِ ثانی" کی مدح سرائی کے لیے کیا ہے تو کوشش ہو گی کہ قسمت کے اس لکھے سے انصاف کر سکوں۔ اگر اس تحریر میں کوئی خوبی ہو گی تو وہ یقیناً قائدِ ثانی کی اصل خوبی سے کم ہو گی اور اگر آپ کو کہیں کوئی کمی یا کوتاہی نظر آئے تو یقین جان لیجیے گا کہ وہ اس کوتاہ بین و کم نظر خاکسار کی نادانستہ غلطی ہے، اور ویسے آپ بھی اس امر سے متفق ہوں گے کہ قائدِ ثانی کی ذات کو احاطۂ تحریر میں لانا عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ اب چلتے ہیں باقاعدہ مضمون کی طرف۔

پیدائش:
جیسا کہ اکثر عظیم شخصیات کے ساتھ یہ سانحہ ہوتا ہے، آپ کی تاریخِ پیدائش میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن آپ کی عظمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ماہرینِ جدید شدید تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آپ کی تاریخ پیدائش نہیں ہے بلکہ آپ کا دورانیہ پیدائش پانچ اکتوبر انیس سو باون سے لے کر پچیس نومبر انیس سو باون تک ہے، "بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا"۔

تربیت:
تمام بچوں کی طرح آپ کی والدہ ماجدہ نے بھی آپ کی تربیت کرنے کی کوشش کی مگر، آپ کو بچپن سے ہی اپنی عظمت کا ادراک تھا، اس لیے آپ نے اُن سے تربیت لینے خاص دلچسپی نہ لی۔
البتٰہ آپ کی شخصیت پر آپ کے والد محترم اور چند دوسرے اقرباء کے گہرے اثرات پڑے۔ عظیم شخصیات کی اکثریت کی طرح، آپ کے والدِ ماجد بھی ایک درمیانے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ ایک سرکاری محکمہ میں گریڈ سولہ کے ملازم تھے۔ ایماندار بیحد تھے، اس لیے ہمیشہ اس بات پہ یقین تھا جیسے کسی زمانے بنی اسرائیل کے لیے آسمان سے من و سلوٰی اتارا گیا، آپ کے لیے بھی اوپر سے کچھ اترے گا۔ اس لیے اوپر کی آمدن کو ہمیشہ من و سلوٰی کا متبادل سمجھ کر قبول کیا۔ بنی اسرائیل کے ساتھ، آپ کے والدِ گرامی کی محبت نے آگے چل کر آپ کی زندگی میں اہم کردار بھی ادا کیا۔

تعلیم:
ابتدائی تعلیم، آپ نے شہر کی مصروف ترین سڑک پر موجود ایک سکول میں حاصل کی۔ یہ سکول امراء کے بچوں کے لیے مخصوص تھا مگر آپ کی ذہانت، فطانت اور لیاقت کو دیکھتے ہوئے، آپ کو خصوصی کوٹے پر داخلہ دیا گیا۔ آپ کو بھی حصولِ علم کا اتنا شوق تھا کہ اس لگن میں آپ ایک سڑک پار کرنے کا طویل فاصلہ طے کر کے سکول جایا کرتے۔
تعلیم میں اتنی دلچسپی کے باوجود آپ ایک اوسط طالبعلم ہی واقع ہوئے۔ آپ کی یاداشت بہت تیز تھی، سکول میں ایک بار، ایک ہم جماعت نے آپ کو غلطی سے ہاکی مار دی تھی۔ آپ تمام عمر اس چیز کا بدلہ لینے کے لیے کوشاں رہے۔ اس کے علاوہ آپ میں آگے بڑھنے کا جذبہ بھی نمایاں تھا۔ جو آپ سے آگے بڑھ جاتا، اس کو پیچھے کھینچنے کے لیے آپ ہر قسم کے حربے جائز سمجھتے۔ اپنی سکول کی کرکٹ ٹیم کے کپتان کیخلاف بھی ساری عمر اس بات پر غصہ رہے کہ وہ آپ کو بارہواں کھلاڑی رکھتا تھا۔ معروف شاعر افتخار عارف نے اپنی مقبول نظم "بارہواں کھلاڑی" آپ کے اسی دکھ پر لکھی۔
بارہویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ پر اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کا جنون پیدا ہوا اور اس مقصد کے لیے آپ نے انگلستان کا رخ کیا، اور کھیلوں کی بنیاد پر ایک معروف جامعہ میں داخلہ لے لیا۔

پیشہ وارانہ زندگی:
آپ کی کامیاب پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز نوعمری میں ہی ہو گیا تھا۔ آپ کی کامیابی کا گُر یہ تھا کہ جس چیز کی وجہ سے آپ دوسروں پر تنقید کرتے تھے، موقع ملتے ہی بڑی معصومیت اور صفائی کے ساتھ وہی کام کر گزرتے تھے۔  آپ بچپن سے ہی اپنے ہم جماعتوں کے ٹفن بھی صفائی سے صاف کر جاتے تھے۔
ملک کے ایک دلیر جرنیل، جنہوں نے ملک کو غدار مچھیروں سے نجات دلا کر، ان کے لیے ایک الگ سڑا ہوا ملک بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، کی سفارش پر آپ کو کرکٹ کی قومی ٹیم میں جگہ مل گئی۔ اس میں دوسرا اہم کردار آپ کے کزن کا تھا، بعد میں آپ نے موقع ملتے ہی اس کزن کی پشت میں چھرا گھونپ کر انہیں ٹیم سے نکال باہر کیا۔
آپ نے کرکٹ کے کھیل میں ناخن، بلیڈ اور بوتل کے ڈھکنے جیسی اہم اور جدید چیزیں متعارف کروائیں، جنہیں حاسدین آج تک آپ کی بےایمانی سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن آپ نے کبھی بھی اپنے ایامِ کھیل میں اس بات کو تسلیم نہ کیا، بلکہ اس کو سفید جھوٹ کہتے رہے، مگر ریٹائرمنٹ لے بعد تسلیم کر لیا کہ یہ سائینس آپ نے ہی متعارف کروائی تھی۔
جھوٹ بولنے کی اس عادت کو آپ نے بعد میں اپنی سیاسی زندگی میں بھی خوب استعمال کیا مگر یہاں زیادہ تر جھوٹ پکڑے جانے کی بناء پر زیادہ تر بری طرح ذلیل ہوئے۔
کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ، آپ اپنی فطری وجاہت اور مشرقی خوبصورتی کی بدولت ایک پیشہ ور خاتون مار المعروف لیڈی کلر بھی تھے۔ جب بھی کوئی لڑکی دیکھوں میرا دل دیوانہ بولے اولے اولے اولے، آپ ہی کی رومانوی زندگی پر لکھا گیا نغمہ ہے۔ اس کے علاوہ، "آ جا گناہ کر لے"، ۔"چوری چوری چھورا چھوری چھت پہ ملیں گے تو کھیلیں گے پریم گیم"، "چھورا چھوری پارٹی میں، ڈُپ چِھک ڈُپ چِھک ہو ری سَین" اور ان جیسے کئی معروف رومانوی نغمے آپ کے رومانوی پیشے کا احاطہ کرتے ہیں۔ آپ کا نظریۂ رومان رنگ، نسل مذہب سے بالاتر تھا، اس لیے کبھی آپ نے سیتا کو اپنے رومان کی زینت بنایا تو کبھی وائیٹ کو امان بخشی۔
البتٰہ بعد میں آپ اپنی زندگی کے اس گوشے سے بالکل منکر ہو گئے اور خود کو ولی، غوث، قطب، ابدال کے درجے پر فائز سمجھنا شروع ہو گئے۔ مخالفین آپ پر یہ الزام بھی عائد کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہوتا تو سیاسی کامیابی کے لیے آپ نبوت کا دعوٰی کرنےسے بھی گریز نہ کرتے۔
ایک اور الزام جو آپ کی رومانوی زندگی کے حوالے سے آپ پر عائد کیا جاتا ہے، وہ عدالتی فیصلہ آنے کے باوجود آپ نے کبھی نہیں مانا، کیونکہ آپ کا ماننا ہے کہ بات وہی سچ ہے جو ہمارے حق میں ہے، باقی سب جھوٹ ہے۔ اسی چیز کی تبلیغ آپ نے اپنے مقتدین اور مقلدین کو بھی کی، جس کی وجہ سے معاشرے میں رواداری اور برداشت جیسی برائیاں کافی حد تک کم ہو گئیں۔

سیاسی زندگی:
آپ نے ایک بھرپور اور ہنگامہ خیز سیاسی زندگی گزاری۔ مروجہ طریقوں سے کامیابی حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد آپ نے عظیم جمہوری راہنماؤں جیسے ہٹلر، سٹالن، مسولینی وغیرہ کے طریقے پر عمل شروع کیا اور مخالفین کے خلاف بھرپور طریقے سے ایسی زہریلی پراپیگنڈہ مہم چلائی کہ جوزف گوئبلز بھی اگر زندہ ہوتا تو آپ کی شاگردی اختیار کر لیتا۔ ان تمام جمہوری اقدام کے بعد آپ نے عام انتخابات میں حصہ لیا، جہاں ایک عظیم شکست آپ کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے باوجود نہ آپ شرمندہ ہوئے اور نہ گھبرائے بلکہ ایک نئے ولولے سے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے اپنے پراپیگنڈے کو مزید زہر آلود کیا اور منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے ایک طویل دھرنہ دیا۔
اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران آپ کوک نامی پاؤڈر کے برانڈ ایمبیسڈر بھی رہے، اور اس پاؤڈر کے استعمال کے بعد کی گئی آپ کی تقاریر نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی اور مزاحیہ ضرب الامثال کی حیثیت اختیار کر لی۔

اختتامیہ:
منتخب حکومت کے خلاف طویل دھرنہ آپ کی ذاتی سیاست کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوا اور آپ کی سیاست کمزور پڑتے پڑتے آپ کے نکاحِ ثانیہ کے ساتھ ہی بسترِ مرگ پر پہنچ گئی۔ آپ کی حیثیت ملکی سیاست میں صرف ایک لطیفے کی رہ گئی۔
آپ کے بچپن میں، بقول شفیق الرحمٰن، آپ کے بارے میں بزرگ کہا کرتے تھے کہ اس بچے کا مستقبل بہت تابناک ہو گا اور جب آپ بزرگ ہوئے تو اس وقت بزرگ کہا کرتے تھے کہ اس شخص کا ماضی بہت تابناک رہا ہو گا۔

اتوار، 17 مئی، 2015

پاک چین اقتصادی راہداری پر سیاست کیوں؟

پاک چین اقتصادی راہدری کو لے کر، جب سے چینی صدر کے دورے کے دوران اس کا اعلان ہوا ہے، مختلف قسم کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، جن سے عوام میں ابہام پھیل رہا ہے۔ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس تحریر میں ان الزامات کا جواب دینے کی کوشش کر رہا ہوں، شاید کہ کسی دل میں اتر جائے میری بات۔
سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ پاک چین اقتصادی راہداری ہے کیا چیز اور اس کی اہمیت کیا ہے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ گوادر کی بندرگاہ کی ایک اہم تزویراتی اہمیت ہے اور مکمل طور پر فعال ہونے کے ساتھ ہی یہ تیل کی تجارت کے ساتھ وسطِ ایشیا کے ممالک کو گرم پانی کی نزدیک ترین بندرگاہ ہو گی، جس سے دنیا میں تجارتی راستے بہت حد تک بدل جائیں گے۔
اب آپ ذرا ہمارے اس خطے کا نقشہ اٹھا کر دیکھیں، بھارت اور وسطِ ایشیا کی ریاستوں کے درمیان نزدیک ترین زمینی راستہ پاکستان کے ذریعے ہے اور دوسری طرف سے بھی یہی معاملہ ہے۔ چین کو بھی گوادر کی بندرگاہ بننے سے مشرقِ وسطٰی تک نزدیک ترین راستہ پاکستان ہی سے پڑتا ہے۔ یہاں پر افغانستان کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے، جس کے پاس بندرگاہ بالکل بھی نہیں، اور ابھی بھی اس کی سمندری تجارت پاکستان کی کراچی بندرگاہ سے ہوتی ہے۔
فی الوقت بھارت اور وسطِ ایشیا کی ریاستوں کے مابین تجارت ایران کے ذریعے ہوتی ہے۔ آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہوئی ہو گی کہ ایران تو کہیں سے بھی بھارت اور وسط ایشیائی ریاستوں کے درمیان نہیں آتا، تو پھر اس کے راستے تجارت کیسی؟ ہوتا یوں ہے کہ سامانِ تجارت اگر بھارت سے چلے تو پہلے بھارت کی بندرگاہ سے ایران کی بندرگاہ تک جاتا ہے اور وہاں سے پھر سڑک کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ فرض کریں کہ اگر ایران، بھارت اور وسط ایشیائی ریاستوں سے دس ڈالر فی ٹن راہداری کی مد میں، یعنی اپنا راستہ استعمال کرنے کی فیس لیتا ہے تو اس کو کتنی آمدن ہوتی ہو گی۔ اور اگر یہی تجارت پاکستان کے راستے ہو رہی ہو تو پاکستان کی آمدن میں کتنا اضافہ ہو گا۔
اب آتے ہیں دوسری طرف، اگر آپ تین دوست پشاور میں موجود ہیں اور آپ میں سے ایک کو سامان لیکر گوادر جانا ہے، دوسرے کو لاہور آنا ہے اور تیسرے کو سکھر جانا ہے تو کیا آپ تینوں ایک ہی راستہ استعمال کریں گے یا جو راستہ آپ کو نزدیک ترین پڑے گا، وہ استعمال کریں گے؟ کوئی مشکل سوال نہیں ہے، آپ لوگ بہت آسانی سے اس کا جواب دے سکتے ہیں، ظاہری بات ہے نزدیک ترین راستہ۔
یہی صورتحال پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بننے والی تین شاہراؤں کی ہے، جنہیں مغربی، وسطی اور مشرقی راستوں کا نام دیا گیا ہے، اور ہر شاہراہ چین سے شروع ہو کر گوادر پر ختم ہوتی ہے۔
ابہام یہ پھیلایا جا رہا ہے کہ یا تو یہ راہداری چھوٹے صوبوں سے گزرتی ہی نہیں اور اگر گزرتی بھی ہے تو پنجاب میں راستہ بننے سے دوسرے صوبوں کا حق مارا جائے گا۔ یہاں میں چند ایک سوالات آپ کے ذہنوں کے لیے کرنا چاہتا ہوں۔
۱۔ کیا چین سے جو بھی مال آئے گا، وہ صرف گوادر کے لیے ہو گا یا اس میں سے کچھ مال پاکستانی تاجروں کی درآمد بھی ہو گا، جو ملک کے مختلف شہروں میں کاروبار کرتے ہیں؟
۲۔ مختصر ترین راستہ ہونے کی وجہ سے اگر چین اور بھارت کی تجارت پاکستان کے راستے ہوتی ہے تو وہ پہلے گوادر مال بھیجیں گے یا زمینی راستے سے مال بھیجیں اور وصول کریں گے؟ یہ تجارت پاکستان اور بھارت کے سرحد جو پنجاب اور سندھ میں مسلسل ہے کہ زریعے ہو گی یا گوادر اور ممبئی کے سمندری راستے کے ذریعے؟
۳۔ اگر سندھ اور پنجاب کے پاکستانی تاجروں نے سامان گوادر بھیجنا ہے تو اس کے لیے کونسا راستہ استعمال کریں گے؟
ان سوالات کو پڑھنے کے بعد، آپ کو پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے تین مغربی، وسطی اور مشرقی راستوں کی سمجھ آ گئی ہو گی کہ ان شاہراہوں کا مقصد کسی کی حق تلفی نہیں اور نہ ہی مقابلے کی فضا پیدا کرنا ہے، بلکہ تاجروں، صنعتکاروں اور نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ اور اس سلسلے میں حکومتِ پاکستان کے اعلان کے مطابق سب سے پہلے مغربی راستہ بنے گا، جو چین اور گوادر کے درمیان سیدھا اور مختصر ترین راستہ ہے اور خیبرپختونخواہ ۔ بلوچستان سے گزرتا ہے۔
ایک اہم چیز کا ذکر کرتا چلوں کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت صرف یہ تین شاہراہیں شامل نہیں، بلکہ توانائی خصوصاً بجلی کی پیداوار کے اربوں ڈالر کے منصوبے بھی شامل ہیں اور ان میں سے زیادہ تر منصوبے سندھ اور خیبرپختونخواہ میں لگنے ہیں۔ ان منصوبوں کی تفصیل اگلے کسی بلاگ میں دی جائے گی۔
اس اقتصادی راہداری کے سلسلے میں حکومتِ پاکستان نے سرکاری سطح پر نقشے بھی شائع کیے ہیں، اشتہارات بھی دئیے ہیں اور ایک کل جماعتی کانفرنس میں تمام پارلیمانی قائدین کو تفصیلات سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سب کے باوجود کچھ لوگ ناسمجھی میں اور کچھ اپنے سیاسی مفادات کے لیے اس منصوبے، جو پاکستانی عوام کی تقدیر بدل سکتا ہے، کہ خلاف افواہیں پھیلا رہے ہیں۔
خدارا، ان ملک دشمنوں کے پراپیگنڈے کا شکار نہ بنیں بلکہ زمینی حقائق کی بنیاد پر خود تجزیہ کریں۔

بدھ، 13 مئی، 2015

کیڑا ۔ مختصر کہانی

ایک نوجوان ایک بزرگ کے پاس گیا اور عرض کی "بہت پریشان رہتا ہوں۔ زندگی سے اور تمام رشتے ناطوں سے کٹ گیا ہوں۔ طبیعت بیزار رہتی ہے۔ عقل، فہم اور دانش کی باتیں زہر لگتی ہیں۔ کوئی سنجیدہ و متین گفتگو کرے، اس کو کاٹ کھانے کو جی چاہتا ہے۔ زبان پر ہر وقت طعن و دُشنام و یاوہ گوئی و مغلظات ہیں۔ دعا کیجیے۔"
یہ سب سن کر بزرگ نے آنکھیں بند کیں، زیرِ لب کچھ پڑھا، ہلکا سے مسکرائے اور آنکھیں کھول کر نرمی سے اُسے مخاطب کر کے بولے۔ "بیٹا! آپ کسی اچھے سرجن کے پاس جا کر آپریشن کرواؤ، آپ کو تحریکِ انصاف کا کیڑا ہے۔"