بدھ، 24 دسمبر، 2014

خاک زادے کا عشق

خیال سی بے مثال لڑکی
آپ ہی وہ اپنی مثال لڑکی
ان دیکھا سا انجانا سا احساس اس کا
پاکیزگی کا پیراہن لباس اس کا
گنگا بھی اس کی سوگند کھائے
پاروتی اس کے آنچل سے بدن چھپائے
سوہنی کا حسن ماند اس کے سامنے
شیریں کا کوہکن غلام اس کے سامنے
ہمالہ کماری، وہ اولمپس کی شہزادی
برہما کی بیٹی، وہ زیوس زادی
حسن کا استعارہ، وہ کشمیر کی وادی
تمکنت اس کی بیاں کیسے ہو
اوڈیسیس، اتھینا کا نگہباں کیسے ہو
عشق، حسن کا مہماں کیسے ہو
میں ارضی، میں فانی، میں خاک زادہ
کیسے کروں اس سے چاہت کا ارادہ

پیر، 22 دسمبر، 2014

طفلِ آوارہ ہوں سفر میں نہیں رہتا

دل میں رہتا ہوں نظر میں نہیں رہتا
طفلِ آوارہ ہوں سفر میں نہیں رہتا
برقی خط نہیں، پھول بھیجو مجھے
حقیقت ہوں، محض میسنجر میں نہیں رہتا
سرشام بامِ فلک سے جھانکتا چاند
کتنا خودسر ہے گھر میں نہیں رہتا
کیسے پائے گا لطفِ وصل کی معراج
وہ بدنصیب جو ہجر میں نہیں رہتا
کیوں ملتا ہے پیار کوڑے دان میں
گجروں کے باسی زیور میں نہیں رہتا؟

منگل، 16 دسمبر، 2014

شہیدانِ پشاور کا پیغام

بابا! اداس کیوں ہو؟
ماما سے کیوں جھگڑ رہے ہو؟
تمہاری آنکھوں کی چمک کہاں ہے؟
تمہاری گردن کیوں جھکی ہوئی ہے؟
بابا! آج سولہ دسمبر ہے نا؟
تم اپنی اداسی جھٹک ڈالو
اپنی آنکھوں کی چمک ُبلا لو
تمہارا بیٹا جوان ہو گا
اس دیس کی نئی پہچان ہو گا
تم سے یہ وعدہ ہے بابا
میں تاریخ بدل دوں گا
انہونی کو ہونی کر دوں گا
تمہیں اپنے سپوت پہ ناز ہو گا
ظلمت کا یہ سلسہ نہ دراز ہو گا
بابا! شام کو تمہیں بتلاؤں گا
کہ اس دنیا میں کیا کر دکھلاؤں گا
ـ
ـ
ـ
ـ
دیکھ لو بابا!
سولہ دسمبر کی ظلمت پہ میرے لہو کی سرخی غالب ہے
یہ سرخی سیاہی پہ چھا گئی ہے
اک روشن صبح کا پتہ دے رہی ہے
ـ

اتوار، 14 دسمبر، 2014

انجام

وقت کی دہلیز پر قرنوں کا مسافر
دستک دینے سے گریزپا ہے یہ سوچ کر
سراسیمہ ہے، حیراں ہے
اور اس فکر میں سرگرداں ہے
وقت کی چوکھٹ کے در وا ہونے سے
اس کے نصیب میں کونسا لحظہ آئے گا
اس کی مسافت تمام ہو گی
یا پھر سے اذنِ سفر پائے گا
(وقت کی دہلیز سے آج تک
بھلا کوئی مطمئن لوٹا ہے؟
وقت کا گھر تو خود اک سفر ہے
وقت کی قید سے بھلا کس کو مفر ہے)
وقت کی کتاب میں ثبات تو موت ہے
سفر کا تسلسل ہی جیون کی جوت ہے
لحظوں کا، سالوں کا، صدیوں کا، ہزاریوں کا
سفر آخر تمام ہوتا ہے
وقت کی دہلیز پہ کھڑے ہر مسافر کا
ایک ہی انجام ہوتا ہے ـ