منگل، 22 ستمبر، 2015

غازان کی پانچویں سالگرہ پر

میرے بیٹے میری جان!
ہاں یہی سچ ہے کہ تم میرے پاس نہیں
تمہیں شاید ابھی یہ علم بھی نہ ہو کہ بابا
تمہیں یاد کر کے رو رہے ہیں
تمہیں شاید کبھی یہ علم بھی نہ ہو کہ بابا
ہر پل خود سے دُور ہو رہے ہیں
میرے بیٹے!
اپنے بےقصور باپ کو ہو سکے تو معاف کر دینا
اپنی ماں کی بے تحاشہ خدمت کرنا
اور اگر کبھی ہو سکے تو بصد احترام اس سے یہ پوچھ لینا
"ماں! کیا تم مجھے ویسا شوہر بنتے دیکھنا پسند کرو گی، جیسا تم میرے بابا کو بنانا چاہتی تھیں"
میری جان!
اس سالگرہ پر بھی ہم ساتھ نہیں
پانچ سالگرائیں کیسے گزر گئیں پتہ ہی نہ چلا
مگر ان پانچ برسوں میں ہر پل نے تمہارے بابا کی رگوں کو اندر سے کاٹ ڈالا ہے
ہو سکے تو اپنے بابا کو معاف کرنا میری جان
میرے غازان۔

پیر، 21 ستمبر، 2015

بیٹا

عجب رشتہ ہے اُس شخص سے اپنا
میں نے کبھی اُس کی چاہت کو مکمل پایا نہیں
اُس کی سختی ہی یاد آتی ہے، اُس کا گھنیرا سایہ نہیں
اس کی تقسیم شدہ محبت میں سے مجھے
شاید ہی کوئی لمحہ فقط مرے لیے ملا ہو
خط تو پرانے دور کی بات ہے
شاید ہی کوئی محبت بھرا پیغام ملا ہو
اس سے دُور رہنے کے لیے
میں خود سے بھی دُور ہوتا گیا
مگر آج بعد مدت کے
آئینے میں خود کو دیکھ کے یوں لگا
جو نہیں چاہتا تھا، وہی بنتا جا رہا ہوں
میں اپنے والد جیسا ہوتا جا رہا ہوں

بدھ، 16 ستمبر، 2015

خود کشی سے کچھ دیر پہلے

حساسیت کے احساس سے
مایوس عوام الناس سے
ایک زندہ دل شخص
گناہ و ثواب کے عقائد سے ماورا ہو کر
روح کو قیدِ جسم سے آزاد کر رہا ہے
ہاں! اپنی سالگرہ سے کچھ دیر پہلے
وہ شخص خودکشی کر رہا ہے۔

اتوار، 13 ستمبر، 2015

کراماتِ مجاہد اعظم و خفیہ جنگیں

راولپنڈی کے ایک بزرگ بیان فرماتے ہیں کہ پچھلے ہفتے میں تہجد پڑھ کر سویا تو میرے مرشد میرے خواب میں تشریف لائے اور حکم دیا، اٹھو! مجاہدِ اعظم پر شیطانی حملہ ہونے لگا ہے اور تم بےخبری کی نیند سو رہے ہو۔ فوراً دامنِ کوہ پہنچو، وہاں پر ہندوستان اور اسرائیل سے آئے ہوئے پنڈت اور ربی اپنے منحوس شیطانی کالے جادو سے مجاہدِ اعظم پر اوچھے وار کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر مجاہدِ اعظم کو ہلکی سی بھی آنچ آئی تو قیامت کے دن تمہاری بخشش نہیں ہو گی۔
بزرگ فرماتے ہیں کہ میں فوراً گھر سے نکلا، دروازے سے نکلتے ہی میں نے کیا دیکھا کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس چند فقیر میرا انتظار کر رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کہا کہ دفاعِ مجاہدِ اعظم کے لیے ہم مجذوبین کی خدمات بھی قبول کریں۔ میں نے انہیں ساتھ لیا۔ ایک مجذوب نے میرا ہاتھ پکڑ کر آنکھیں بند کرنے کو کہا۔ تھوڑی دیر بعد جب آنکھیں کھولنے کو کہا تو میں نے دیکھا کہ ہم دامنِ کوہ میں تھے اور وہاں پندرہ پنڈت اور تیرہ یہودی ربی شیطانی عملوں میں مصروف تھے۔ مجاہدِ اعظم کے پتلے بنا کر ان میں سوئیاں چبھوئی جا رہی تھیں۔ ماش کی دال کے پتلوں کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا۔ بدبختوں نے کہیں سے گائے کی ران کی مکمل ہڈی بھی کہیں سے حاصل کر رکھی تھی اور اس کو شدید ترین کالے جادو میں استعمال کر رہے تھے۔
بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے روحانی آنکھ سے جائزہ لیا تو کیا دیکھا کہ ان کے ہزاروں بیر پہرے پر مامور ہیں۔ میں ابھی یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ میرے مرشد کی دبنگ آواز میرے کانوں میں گونجی کہ روکو انہیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ یہ سنتے ہی میں نے ان یہود و ہنود کو للکارا۔ میری روحانی للکار سے ان کے جاپ اور منتر رک گئے۔ اور ان بدبختوں کی تمام تر توجہ ہماری طرف مبذول ہو گئی۔ ان نے اپنے بیروں کو ہم پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ ہمارے ارد گرد مکروہ شکلوں والے سینکڑوں بیر نمودار ہو گئے۔ بیروں کو دیکھتے ہی مجذوبوں پر جذب کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اور انہوں نے فوراً بیروں کے واروں کو روکا اور ان کو واصلِ جہنم کرنے لگ گئے۔ لیکن بیروں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ وہ آگے بڑھتے چلے آ رہے تھے۔ اچانک ایک مجذوب نے جذب کی کیفیت میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گواہ رہنا، میں نے مجاہدِ اعظم کی حفاطت کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ یہ کہتے ہی اس عظیم مجذوب نے خود کو آگ کے شعلوں میں غرق کیا اور بیروں کے درمیان گھس گیا۔ بیروں میں کھلبلی مچ گئی۔ مجذوب جدھر کا رخ کرتا دسیوں بیر جل کر خاکستر ہو جاتے۔ ایسے ہی بیروں کو جلاتے جلاتے، اس نے اپنی جان قربان کر دی۔ اس کے بعد بیروں کا حملہ پھر شدت پکڑ گیا، قریب تھا کہ ہم مغلوب ہو جاتے کہ اچانک نعرۂ تکبیر بلند ہوا اور چند نوجوان نمودار ہوئے، پیشانیاں جن کی روشن اور آنکھیں جن کی ایسی کہ نظر ملائے نہ ملے۔ ان جوانوں نے آتے ہی شیطانی بیروں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ یہ جوان آگے بڑھتے گئے، جو بیر ان کے نزدیک آتا خود ہی جل کر خاک ہو جاتا۔ ذرا سی دیر میں بیروں کا تمام لشکر تباہ و برباد ہو چکا تھا۔ نوجوان واپس جانے لگے تو میں نے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟ تو ان کے لیڈر نے جواب دیا کہ ہم اس قوم کے بےنام محافظ ہیں۔ ہم وہ ہیں، جن کا کوئی چہرہ نہیں ہوتا، ہم مرتے ہیں تو کوئی گواہ نہیں ہوتا۔ ہم آب و پارہ سے بنے ہیں، ہم برق ہیں، ہم شعلۂ مستور ہیں۔ ہمارا کام یہاں ختم ہوا۔ اب آگے آپ کا کام ہے۔ میں نے اس کے ہاتھ چومے اور عرض کی کہ ہمارے لیے بھی دعا کرنا، تمہارا جہاں اور ہے، ہمارا جہاں اور۔
بزرگ فرماتے ہیں کہ اب پندرہ پنڈتوں اور تیرہ ربیوں کے مقابلے میں، میں اور میرے ساتھ چند مجذوب رہ گئے تھے۔ اتنے میں تین پنڈت آگے آئے اور انہوں نے کچھ منتر پڑھ کر ہماری طرف پھونکا تو اچانک ہم پر سانپوں کی بارش ہونے لگی۔ ایک مجذوب نے آگے بڑھ کر ایک سانپ کو پکڑا اور اس کا سر توڑ ڈالا، اور اسی سر کو واپس پنڈتوں کی طرف اچھال دیا۔ سانپ کا سر ایک بڑے سے پتھر میں تبدیل ہو گیا اور ان تینوں پنڈتوں کو کچلتا ہوا آگے جا کر ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ پنڈتوں کے جسم سے آگ کے شعلے نکلنے لگے اور سی دیر میں انکی ہڈیاں تک راکھ میں بدل گئیں۔ یہ منظر دیکھتے ہی تمام پنڈت اور ربی ہم پر پل پڑے اور وہاں گھمسان کا رن پڑ گیا۔ سب ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے تھے۔ وہاں سے کالا جادو کیا جا رہا تھا تو یہاں سے نوری علم سے اس کالے جادو کی کاٹ و پلٹ کی جا رہی تھی۔ پنڈت اور ربی جہنم کا ایندھن بن رہے تھے تو مجذوب بھی جنت کو عازمِ سفر ہو رہے تھے۔ جب صورتحال کچھ واضح ہوئی تو میرے سامنے ایک پنڈت اور ایک ربی کھڑے تھے۔ میرے تمام ساتھی راہی ملکِ عدم بقا ہو چکے تھے تو انکے ساتھ والے شیطانی گماشتے بھی اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔
بزرگ فرماتے ہیں کہ جب میں نے غور سے کیا تو احساس ہوا کہ جو یہودی ربی تھا یہ یہودیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتا تھا جس کے ذمے ہیکلِ سلیمانی کی دیکھ بھال اور سربراہی تھی۔ اس یہودی ربی نے اپنی تمام عمر یروشلم میں بیت المقدس کے قریب زیر زمین، اسرائیلی حکومت کی زیر سرپرستی قائم شدہ ہیکلِ سلیمانی کے تہہ خانوں میں شیطانی علوم کی پریکٹس کرتے ہوئے گزاری تھی۔ روحانی حلقوں میں اس کے بارے میں مشہور تھا یہ شخص اتنا بڑا شیطان ہے کہ اگر دجال بھی آ جائے تو اس شخص کی شاگردی قبول کر لے۔ خود اس شخص کا دعوٰی تھا کہ دجال اس کی اولاد میں سے ہو گا، یہ اور بات ہے کہ اس شخص نے قانونی طور پر کبھی شادی نہیں کی تھی۔
اس کے ساتھ جو پنڈت تھا، وہ ہمالیہ کی ترائی میں رہنے والے اس برہمن خاندان کی نسل سے تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ نسل برہما دیوتا کے ناک کے بال سے وجود میں آئی تھی اور اس کا کام ہندومت کو ایسے شُدھ رکھنا ہے، جیسے ناک کے بال سانسوں کی ہوا سے آلائشیں روک کر صرف صاف ہوا پھیپھڑوں میں پہنچاتے ہیں۔ لیکن اس مردود پنڈت نے شیطانی طور اپنائے اور شیطانیت میں اس قدر عروج حاصل کیا کہ کہنے والے کہتے ہیں کہ کالی دیوی نے کئی بار اس کے چرنوں میں بھینٹ دی۔
بزرگ بیان فرماتے ہیں کہ ان دونوں رزیلوں نے مجھ پر شدید شیطانی حملے کیے، میں اپنی روحانی قوتوں سے ان کو روکتا رہا۔ رفتہ رفتہ ان کے حملوں میں شدت بڑھتی گئی، حتٰی کہ وہ نوبت آ گئی کہ قریب تھا کہ میں مغلوب ہو جاتا مگر اچانک میرے دائیں بائیں دو پرنور ہیولے نمودار ہوئے۔ دائیں طرف والے ہیولے نے دشمنوں کو مخاطب کر کے کہا کہ تم مجھ تک پہنچنا چاہتے تھے، لو میں خود آ گیا ہوں۔ میرا جو بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو۔ ان مردودوں نے اپنا ہر جادو، ہر حربہ آزمایا مگر اس پرنور ہیولے پر اثر نہ ہوا۔ پھر اس شخصیت نے بائیں طرف والی شخصیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، اے دروغۂ جنت برائے محب وطنان و دشمنِ ساقیان آبِ ہوسِ جرم و ایمان و ننگانِ وطن، ان دونوں ننگِ ناموسِ انسانیت کو جہنم واصل کر دو مگر اس سے پہلے ان کو اپنے عجائب خانہ جاتِ عمیق کی سیر ضرور کروا دینا کہ شائد ان کے دل کچھ منور ہو جائیں۔ بائیں شخصیت آگے بڑھی، ربی و پنڈت کے کندھوں پر ہاتھ رکھا، روشنی کا ایک جھماکہ ہوا اور وہ تینوں نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ پھر اس پرنور شخصیت نے مجھ سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ میں ہوں مجاہد اعظم اور مجھے آپ کی پرفارمنس پسند آئی ہے، اس کے لیے آپ کو ضروری انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔
بزرگ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد مجاہد اعظم نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دھکا دیا تو میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا۔ میرا چھوٹا بیٹا دروازے پر ایک سٹیکر چپکا رہا تھا، جس پر مجاہد اعظم کی تصویر کے ساتھ میرے دل کے جذبات بھی تحریر تھے، "شکریہ راحیل شریف"