ہفتہ، 29 جولائی، 2017

پشیمان آئینہ فروش


(ایک نظم جو امتنان قاضی کے بارے میں نہیں لکھی گئی)

کبھی کسی بازار میں کہیں
آئینے بیچ رہا تھا کوئی قاضی
کسی نابکار نے یہ سوال کیا
بہ صد تکریم و عجز و وقار
حضور نے یہ پیشہ کیونکر اختیار کیا؟
کیا حضور کے ذمہ تمام فرائض ادا ہو چکے؟
مجرم سزا پا چکے، مظلوم جزا پا چکے؟
عرق آلود پیشانی کے ساتھ بہ پشیمانی
آئینہ فروش کچھ یوں گویا ہوا
کچھ ایسا انصاف کیا ہے اک فیصلے میں
کسی اور کا تو کیا کہوں
آئینے سے بھی نظر نہیں ملا پایا ہوں میں
سو گھر کے تمام آئینے بازار میں لے آیا ہوں میں