جمعہ، 17 اکتوبر، 2014

داعش، طالبان اور خطے میں خونریز تصادم کے امکانات

داعش، مشرقِ وسطٰی میں ابھرنے والی ایک نئی انتہا پسند تنظیم ہے جس نے پہلے سے موجود شدت پسند تنظیموں کو بھی کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے ـ اس تنظیم کی شدت پسندی کا عالم یہ ہے کہ القاعدہ جیسی تنظیم نے بھی اسے شدت پسند قرار دیا ہے ـ اس تنظیم نے اپنے خیالات، افکار اور عقائد کے مطابق ایک اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا ہے اور سرِدست اس میں عراق اور شام کو شامل کیا ہے، لیکن ان کے مستقبل کے عزائم میں اس ریاست میں تقریباً تمام مسلم ممالک کو شامل کرنا ہے ـ
مشرقِ وسطٰی کے حالات اور وہاں اس تنظیم کے انجام سے قطع نظر اس تحریر میں اس تنظیم کی وجہ سے ہمارے خطے یعنی پاکستان، افغانستان، ایران اور بھارت پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی ـ تاریخ اور حالاتِ حاضرہ سے دلچسپی رکھنے والے افراد اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس خطے میں پہلے سے ہی مختلف مذاہب اور ان کے ذیلی فرقوں سے تعلق رکھنے والی شدت پسند تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں ـ جن میں القاعدہ، طالبان اور تحریکِ طالبان سرِفہرست ہیں ـ اس تحریر میں انہی کا احاطہ کیا جائے گا ـ
قارئین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ القاعدہ اور طالبان اس خطے خصوصاً افغانستان میں تقریباً دو دہائیوں سے مصروفِ عمل ہیں اور کچھ عرصہ افغانستان میں حکومت بھی کر چکے ہیں ـ جہاں انہوں نے اماراتِ اسلامیہ افغانستان کے نام سے اپنی حکومت قائم کی تھی ـ جس کی سربراہی ملا محمد عمر کے پاس تھی جنہیں امیر المومنین یا خلیفہء وقت کا درجہ دے کر ان کی بیعت بھی کی گئی تھی ـ بعد میں پاکستان میں قائم ہونے والی تحریکِ طالبان پاکستان بھی ملا عمر کی امارت کو تسلیم کرنے کا دعوٰی کرتی تھی ـ نو گیارہ کے واقعات کے بعد، افغانستان پر امریکی حملے کی وجہ سے افغانستان پر طالبان کی امارت ختم ہو گئی اور اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد آپریشن میں مجوزہ ہلاکت کے بعد القاعدہ بھی نسبتاً کمزور ہو گئی مگر انتہا پسند گوریلا تنظیموں کے طور پر ان کی قوت سے انکار ممکن نہیں ـ
ادھر مشرقِ وسطٰی میں داعش نے بھی جس اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا ہے وہ بھی دراصل ایک امارت ہے جس کے امیر یا خلیفہ ابوبکر البغدادی ہیں ـ مشرقِ وسطٰی میں قوت پکڑنے کے ساتھ ساتھ اس خطے میں بھی داعش کی موجودگی کی اطلاعات ہیں ـ یہ وہ صورتحال ہے جو کہ انتہائی حد تک تشویشناک ہے اور خونریزی کے امکانات کو شدت سے جنم دیتی ہے ـ
دونوں جماعتیں چونکہ اسلامی ریاست اور اسلامی نظامِ حکومت یعنی خلافت کی دعویدار ہیں لہذٰا دونوں کے امیر خلافت کا حقدار خود کو ہی سمجھتے ہیں ـ اسلامی نظامِ ریاست بلکہ دنیا کے کسی بھی نظامِ حکومت میں ایک وقت میں دو سربراہ یا امیر نہیں ہو سکتے ـ اسلامی نظام میں یہاں تک حکم ہے کہ اگر ایک امیر کی موجودگی میں دوسرا خروج کرے تو اسے قتل کر دو ـ
اب اس خطے میں ملا عمر کی امارت تو پہلے سے قائم ہے تو جو لوگ ابوبکر البغدادی کی بیعت کریں گے وہ ملا عمر کیخلاف کے خروج سمجھا جائے گا اور طالبان ان کا قتل اپنے لیے جائز سمجھیں گے ـ بالکل اسی طرح بغدادی کی بیعت کرنے والوں کے نزدیک ملا عمر کی امارت باطل ہو گی اور وہ ملا عمر اور ان کے پیروکاروں کا قتل جائز سمجھیں گے ـ چونکہ دونوں تنظیمیں کوئی باقاعدہ فوج نہیں رکھتیں اور اپنی اپنی ریاستوں سے چھپ کر گوریلا جنگ لڑتی ہیں اس لیے ان کے درمیان جنگ باقاعدہ جنگ نہیں ہو گی بلکہ یہ ہمارے گھروں، گلیوں اور محلوں میں لڑی جائے گی ـ محض شک کی بناء پر لوگ قتل ہوں گے اور اس جنگ کا دائرہ تیزی سے پھیلتا چلا جانے کا امکان ہے ـ
اس صورتحال میں ایران کا ردعمل بھی شدید ہو گا کیونکہ فرقوں میں تفریق کی وجہ سے ایران ان دونوں جماعتوں کا مشترکہ دشمن ہے لہذٰا وہ خود پر حملے سے پہلے ان جماعتوں کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا اور نتیجے میں شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والی آبادی جو پہلے بھی شدت پسند تنظیموں کے نشانے پر ہے اس جنگ میں شامل ہو جائے گی اور خونریزی مزید بڑھے گی ـ
بھارت بھی اس صورتحال سے لاتعلق نہیں رہ سکے گا اور وہ بھی کسی نہ کسی طرح اس جنگ میں شامل ہو گا کیونکہ وہاں بھی یہ لڑائی کسی نہ کسی صورت پھیلے گی اور وہاں یہ فرقہ وارانہ لڑائی کی حد سے نکل کر مذہبی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے ـ
اس خطے پر قبضے اور کنٹرول کی خواہش تمام مسلم انتہا پسند تنظیموں کو ہے جو کہ کچھ روایات کے مطابق خطہء خراسان ہے اور اسلام کو اسی خطے میں قائم اسلامی حکومت کی بدولت دوبارہ عروج حاصل ہو گا ـ بعض روایات و عقائد کے مطابق یہی خطہ امام مہدی کی فوج کا بھی ہے ـ ان روایات و عقائد کی تفصیل و تنقیدی جائزے پر جانے کی بجائے اس بات پر تحریر کا اختتام ہے کہ اگر اس خطے کی حکومتوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور مل کر اس فتنے کو جڑ سے نہ اکھاڑہ تو یہاں ایک خانہ جنگی ناگزیر ہے جس میں ہزاروں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا اندیشہ ہے ـ