اتوار، 29 مارچ، 2015

دو دھماکے

مجھے ڈر ہے
کہ پہلے دھماکے سے لیکر اب تک
ازلی آقا جو عرش و اولمپس و ہمالہ
پہ براجمان ہمارے خدا بنے بیٹھے ہیں
وقت کی ابتداء سے ہی جنہوں نے
غریبوں ناداروں مفلسوں کے پسینے سے
کمائے سِکّوں کی قربانی طلب کی
اور اس قربانی کے عوض فقط
ایک آس ایک امید ایک دلاسا دیا
اور اگر کبھی زردار سے خراج بھی لیا
تو وہ خراج بھی
مفلسی کے خون سے ادا کیا گیا
مجھے ڈر ہے
ان ازلی آقاؤں کی نسلیں بھی
کسی آخری دھماکے میں معدوم نہ ہو جائیں

ہفتہ، 28 مارچ، 2015

خواب ۔ گلزار کی نظم کی پیروڈی

صبح صبح اک زور کی دستک پہ دروازہ کھولا
دیکھا سسرال سے سالے آئے تھے
آنکھوں میں خون تھا اُن کے
چہرے غصے سے تمتائے
پاؤں چُومے، ٹھوڑی کو ہاتھ لگائے
اور سالوں سے تھپڑ گھونسے کھائے
آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آئے
سالے مجھے پھینٹی لگانے آئے تھے
آنکھ کھلی تو ہسپتال میں تھا
جسم ابھی تک چٹخ رہا تھا
چوٹوں کا درد ابھی گیا نہیں تھا
خواب تھا شاید، خواب ہی ہو گا
سنا ہے سسرال میں کل رات تھی پارٹی
سسرال میں کل رات ہم زلف کی طبیعت صاف ہوئی ہے

منگل، 17 مارچ، 2015

چوہڑا

صبح اٹھتے ہی اس نے ناشتہ کیا، سفید کلف والا سُوٹ پہنا، سنہری گھڑی باندھی، اوپری دو بٹن کھولے تاکہ سونے کی زنجیر نظر آتی رہے۔ چھوٹے بھائی کو آواز دے کر پوچھا کہ وہ بھی تیار ہے یا نہیں اور گلی میں نکل آیا۔ کیا دیکھا کہ رات بیوی نے جو کوڑا باہر پھینکا تھا ابھی تک وہیں دروازے کے سامنے پڑا ہے اور کچھ دُور جمعدار نالی صاف کر رہا ہے۔ "ادھر آ اوئے چوہڑے" آواز دی۔ جمعدار آیا تو تھپڑ مار کر بولا، "حرامزادے، یہ تیرا باپ اٹھائے گا؟ یہ ساری چوہڑوں والی اکڑ نکال دیتا پر ابھی میری فلائٹ ہے۔" دس روپے کا نوٹ چوہڑے کے منہ پر مارا، موبائل نکال کر کال ملائی، "ہیلو جینی، یس دس از می۔ یس یس، آئی ول بی بیک ٹوڈے۔ پلیز انفارم مسٹر جیکسن ہز واش روم کلینر ول بھی ان نیویارک ٹوڈے۔"

پیر، 9 مارچ، 2015

انعام

میرے نارسا، میرے پارسا
تیری جدائی سے میری قربتیں
میرے عشق کو شاد کر گئیں
تیرے وصل سے میری فرقتیں
چاہتوں کو برباد کر گئیں
میری دشت دشت کی ریاضتیں
میری روز و شب کی عبادتیں
بس اک نگاہ میں لُٹ گئیں
تیرے در سے سب نسبتیں
اک شکن سے چُھٹ گئیں
مجھے ہجر تو نصیب نہ تھا
مگر اس راہ گزر کے سفر پر
سب صعوبتیں اور کلفتیں
راحتوں میں ڈھل گئیں
تیری اک نظر سے کھل اٹھے
عارض و رخسار مرجھائے ہوئے
سب چہرے کملائے ہوئے
اک مسکان سے جل اٹھے
سب چراغِ جاں بُجھے ہوئے

منگل، 3 مارچ، 2015

متفرق اشعار

اس حصے میں وہ اشعار شامل ہیں جو کسی نظم و غزل کا حصہ نہیں۔ اس لیے یہاں بےترتیبی بھی نظر آئے گی اور تنوع بھی۔
۔
لگاؤ مجھ شوریدہ سر پہ توہینِ محبت کی حد
دستِ قاتل کو ہے بےاعتنائی سے جھٹکا میں نے

۔
میرے دل میں تم ہی تم ہو
کیا دل تم سے بھر گیا ہے؟

۔

اتوار، 1 مارچ، 2015

التجا

میرا علم و فن، کلام و لحن
تیری بارگاہ میں سب رہن
میرے علم و کلام کے بدلے
مجھے اپنے تکلم سے نواز دے
یدِ بیضا کا نہیں مدعی میں
مجھے نارِ عشق میں ڈال دے
میرا فن نہیں قُم باذن اللّٰه
اسے چھین لے مجھ سے
مجھے ایک نظر دیکھ لے
میری روح کو زندگی کا ساز دے
جس سے وہ نغمہ ہو بکھر رہا
آہن کو موم کر دے، جو حُدی کو ناز دے
مجھے اپنے بازوؤں میں بھینچ لے
میرے جنوں کو قرار دے
میرا علم و فن، کلام و لحن سب چھین لے
مجھے کوئی شام ادھار دے