پیر، 19 مئی، 2014

تپتی دھوپ میں چھاؤں جیسی ہے

تپتی دھوپ میں چھاؤں جیسی ہے
دوست تو ہے پر ماؤں جیسی ہے
یوں تو شہر کی  رہنے والی ہے
اپنی ہر چھب میں گاؤں جیسی ہے
جو ملیں ہمیشہ کسی مستحق کو
فقیر کی مانگی دعاؤں جیسی ہے
پردہ جو رکھیں ہمیشہ پاروتی کا
کورو کے دربار میں رداؤں جیسی ہے
کیا فرار ڈھونڈوں تجھ سے زیست
آ جا کہ تجھے ِبتاؤں جیسی ہے!!

جمعرات، 15 مئی، 2014

دیواروں کا جنگل اگتا ہی چلا گیا

دیکھ کر مجھے وہ انجان ہو گیا
عجب یہ اپنا سلسلۂ پہچان ہو گیا
دیواروں کا جنگل اگتا ہی چلا گیا
درختوں کا شہر سارا ویران ہو گیا
اس قدر وفائیں لٹیں سرِ عام کہ
شہر کوفہ کا بھی پشیمان ہو گیا
ناقدری سے یوں نبھائی وفا کہ
وہ بے مہر بھی آخر مہربان ہو گیا
سوچ ہی کا استعارہ ہیں مژگانِ نم
ُتو تو مرے لفظوں کی پہچان ہو گیا

اتوار، 4 مئی، 2014

وقار کا مسئلہ

کچھ دنوں سے جس محفل میں بیٹھتا، وقار کی بات چھڑ جاتی، انٹرنیٹ کھولو، اس پہ بھی وقار، دوست سے فون پہ بات، وہاں بھی وقار ـ ذہن چکرا کر رہ گیا کہ آخر یہ وقار ہے کون اور سب اس بیچارے کے پیچھے کیوں پڑے ہیں ـ ہر دوسرا بندہ اسے کوس رہا ہے ـ آخر وقار نے اس قوم کا بگاڑا کیا ہے ـ ایک خیال تو ذہن میں یہ پیدا ہوا کہ شاید ہماری پاکستانی قوم نے پھر استاد امام دین گجراتی، حامد میر اور زبیدہ آپا کے ٹوٹکوں کی طرح کوئی فراغتی مصروفیت ڈھونڈ لی ہے ـ آخر تنگ آ کر اس موضوع پر تحقیق کرنے کا سوچا ـ اس تحقیق میں جو حقائق سامنے آئے اور ان کی بنیاد پر فدوی نے جو نتائج مرتب کئے وہ آپ کے پیشِ خدمت ہیں ـ
۱ ـ وقار ایک کھلاڑی ہے، جو اپنے آپ کو ہر کھیل کا بہترین کھلاڑی سمجھتا ہے لیکن ٹیم ورک پر یقین نہیں رکھتا اور اکیلے اس سے کھیلا نہیں جاتا ـ
۲ ـ وقار، ماشاءاللہ سے انتہائی خوش خوراک ہے اور کسی بھی کھانے کے موقع پر ساٹھ سے ستر فیصد حصہ وقار ہی چٹ کر جاتا ہے ـ
۳ ـ وقار، کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ماشاءاللہ سے سائنسدان، طبیب اور سیاستدان بھی ہے، کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے کوئی چاہے نہ چاہے اپنے نیم حکیمی نسخے بالمعاوضہ زبردستی اگلے کے منہ میں گھساتا ہے ـ تھوک سے پکوڑے تلنے، الٹے بانس بریلی بھیجنے اور ایک مخصوص مائع میں سے مچھلیاں پکڑنے میں وقار کو خاص ملکہ حاصل ہے ـ
۴ ـ مذہب اور لبرل علوم کا بھی وقار بہت بڑا ماہر ہے ـ حسبِ ضرورت (ذاتی) وقار کبھی مذہبی راہنما کے روپ میں نظر آتا ہے اور کبھی تان پورے پر اپنے عبور کے جوہر بھی دکھاتا ہے ـ کبھی بنیاد پرستی کو راہِ جنت بتاتا ہے اور کبھی ماڈرنائزیشن کو ترقی کی منزل کا پہلا زینہ ثابت کر دیتا ہے ـ
۵ ـ داخلی اور خارجہ امور پر بھی وقار کو عبور ہے ـ داخلی سطح پر معاملات بگاڑنے ہوں یا بین الاقوامی سطح پر تعلقات، وقار کو ہر دو معاملات میں یکساں اور باقی دنیا کے تمام ماہرین پر ایک خصوصی برتری حاصل ہے ـ اس ضمن میں شاید عیدی امین، قذافی، صدام، سٹالن، ہٹلر اور ملا عمر ہی وقار کے ساتھ مقابلے کا دعٰوی کر سکتے ہیں ـ
۶ ـ ادب میں بھی وقار کا ایک خاص مقام ہے ـ کسی خاص مقام کے ڈوبنے پر ایسی زبردست تحریر بھی لکھ سکتا ہے جس میں وقار صریحاً بے قصور نظر آتا ہے اور فرشتے بھی قصوروار دکھائی دیتے ہیں ـ اس کے علاوہ ادب کے ذریعے عوام میں بسم اللہ، سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اللہ جیسے اوراد بھی پھیلائے جاتے ہیں تاکہ عوام کتاب پڑھے نہ پڑھے کتاب کا نام پڑھ کر ہی ثوابِ دارین حاصل کرے ـ البتہ، ضرورت پڑنے پر وقار، مختلف صاحبانِ قلم و نطق کی خدمات بھی احساناً قبول کرتا ہے اور ان نام نہاد بابوں کی عظمیت و پاکیزگی بھی عوام کے ذہن پر ثبت کر دیتا ہے ـ
۷ ـ وقار کی ایک اور بڑی صلاحیت یہ ہے کہ وقار کیخلاف اٹھنے والی آواز کچھ عرصہ بعد خود بخود خاموش ہو جاتی ہے اور اگر آواز خاموش ہونے پر رضامند نہ ہو تو کہیں لاپتہ لازمی ہو جاتی ہے اور پھر آواز کے لواحقین آواز کو ڈھونڈنے کے لئے گلی کوچوں اور نگر نگر آواز ہی لگاتے پھرتے ہیں ـ
۸ ـ وقار کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وقار کچھ مخصوص معاملات میں نہ نہیں کر سکتا ـ جب بھی کسی نے کسی اور کی مخالفت میں وقار کو ایک مخصوص عمارت میں قیام کی دعوت دی ہے، وقار نے دعوت دینے والے کی پشتوں اور اس قعم ' پر احسانِ عظیم کرتے ہوئے نہ صرف دعوت قبول کی ہے بلکہ اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ یہ قیام طویل سے طویل تر ہو ـ
۹ ـ وقار کے جلال کا عالم یہ ہے کہ کوئی وقار کے سامنے انکار نہیں کر سکتا  ـ اگر کوئی بدنصیب، قسمت کا مارا، وقار کے سامنے لفظِ انکار بول ہی دے (یاد رہے کہ یہاں بول سے کوئی ایسا ادارہ مراد نہیں ہے، جس کا الزام بھی وقار پر لگتا ہے) تو اس کو جلالِ وقاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ لڑکیوں کے کالج کے سامنے نظربازی کرنے والے نوجوانوں کی طرح پولیس اور انتظامیہ اور حتٰی کے وقار کے اپنے عتاب کا بھی نشانہ بنتا ہے ـ
۱۰ ـ وقار کے ساتھیوں کا ماننا ہے کہ وقار ہی اس قوم کا مسیحا و ملجا ہے ـ اس کے علاوہ اگر کوئی وقار کو ایک مخصوص حد سے زیادہ تکریم دے مثلاً یہی کہ ڈیڈی وغیرہ بول دے تو وقار اس کی نسلوں بھی سنوار دیتا ہے، کبھی اپنی عمر لگنے کی دعا بھی دیتا ہے اور کبھی تبدیلی کا نشان بھی بنا دیتا ہے ـ
اتنی ساری خوبیوں اور قوتوں کے باوجود وقار کی ایک بہت بڑی کمزوری ہے کہ وقار مجروح (زخمی) بہت جلدی ہو جاتا ہے لیکن یہ مجروح، سلطان پوری کی طرح نہیں ہوتا کہ دکھی گیت مالا جنم لے لے بلکہ یہ مجروح ایسے ہوتا ہے کہ مجروح کرنے والے کو نہ صرف لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں بلکہ اکثر اپنی اوقات کے ساتھ ساتھ نانی بھی یاد آ جاتی ہے ـ اب واپس آتے ہیں کھیل کی طرف اور کھیل میں بھی کرکٹ کی طرف کیونکہ پوری قوم کی طرح وقار کو بھی کرکٹ میں خصوصی دلچسپی ہے اور یہ اپنے آپ کو اس کھیل کا بہترین بلے باز، گیند باز، کیپر، فیلڈر، کوچ اور فزیو سمجھتا ہے اور اسی لئے بار بار مجروح بھی ہو جاتا ہے ـ
وقار کی ڈومیسٹک مخالفین کے خلاف کارکردگی تو بلاشبہ بہت تباہ کن ہے مگر جب بھی بین الاقوامی سطح پر کوئی کڑا مقابلہ ہوا ہے تو سچن، رمیش، ٹنڈولکر، اجے اور جدیجہ وغیرہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر وقار کی خوب دھلائی کی ہے لیکن وقار اس کا موردِ الزام بھی دوسروں کو ہی ٹھہراتا ہے ـ
ان تمام حقائق کی روشنی میں ہم نے  یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وقار کو مجروح ہونے سے بچانے کے لئے ہمیں اس کا انضمام احتیاط سے انتحاب کر کے تنویر اور توقیر کے ساتھ کرنا چاہیے ـ شاید اسی کے اعجاز، سلامتی کی مشتاق یہ قوم جاوید ہو جائے اور اس کا افتخار (انجم) بحال ہو اور کوئی خوشی کی نوید ملے اور ایک نیا عمرانی معاہدہ ترتیب پائے اور وقار بار بار مجروح نہ ہو کر ریاست کو استحکام سے نواز دے ـ