ہفتہ، 29 نومبر، 2014

ن کے بغیر (ن)یا پاکستا(ن)

انسان ابتدائے تاریخ سے ہی ایک ایسے معاشرے کے قیام کے خواب دیکھتا رہا ہے جسے انگریزی کے ایک لفظ UTOPIA میں بیان کیا جا سکتا ہے ـ لیکن بدقسمتی سے آج تک انسانیت کو ایسی قیادت میسر نہ آ سکی جو ایسے مکمل معاشرے کے قیام کو ممکن بنا سکے، اور اس قیادت کے ساتھ ساتھ ایسے کارکن بھی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتے جو قیادت کے رنگ میں مکمل رنگے گئے ہوں بلکہ ان کا رنگ قیادت سے بھی زیادہ گہرا ہو ـ
قیامِ پاکستان، قدرت کا ایک معجزہ ہی تھا اور آج یہ کہنے میں، میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ تاریخ کہ اس موقع پر جب قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد پورے ہونے جا رہے ہیں، میں نہ صرف اس کا گواہ ہوں بلکہ یہ تحریر لکھ کر اس میں اپنا حصہ بھی ڈال رہا ہوں اور شاید اپنے سابقہ جرائم کا کفارہ بھی ادا کر رہا ہوں ـ تیس نومبر، دو ہزار چودہ کو جو نیا پاکستان بننے جا رہا ہے اس کی قیادت اس عظیم کپتان کے ہاتھ میں ہے جس نے جو چاہا پا لیا، کوئی اس کے قدم نہ روک سکا ـ کوئی اس کے رستے کی دیوار نہ بن سکا اور نہ ہی کوئی مجبوری اس کے آڑے آئی ـ
کپتان کے عزم کے مطابق نیا پاکستان اتنا نیا ہو گا کہ کہ نہ تو علامہ اقبال نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور نہ قائداعظم محمد علی جناح کے وہم و گمان میں تھا ـ کیونکہ ان دو بزرگوں کا جو پاکستان تھا وہ تو اکہتر میں یحیٰی، مجیب اور بھٹو کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا تھا، اس لیے کپتان کے مطابق ایک نئے، چمکتے دمکتے، لشکیلے پاکستان کی بنیاد رکھنی ضروری ہے، جو UTOPIA کی تمام تر شرائط پوری کرتا ہے ـ
اب بہت سے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ ایسی قیادت کہاں سے آئے گی جو یوٹوپیا بنا سکے تو سب کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کپتان کی صورت میں انسانیت کو وہ قیادت میسر آ چکی ہے ـ باقی اگر کوئی کمی بیشی رہ بھی جائے تو شاہ محمود قریشی، عبدالعلیم خان، اعظم سواتی، خورشید محمود قصوری، اسد عمر اور شیریں مزاری پوری کر سکتے ہیں ـ کبھی تاریخ نے کسی راہنما کے میمنہ و میسرہ پہ ایسے سالار دیکھے ہیں؟ یوں تو کپتان ایک مکمل اور جامع شخصیت ہیں لیکن اگر کبھی کسی سے مشورہ لینا پڑ ہی جائے تو شیخ رشید احمد صاحب، مبشر لقمان صاحب اور حسن نثار صاحب جیسے مفکرین و فلسفی موجود ہیں ـ
مجھے پورا یقین ہے کہ تیس نومبر دوہزار چودہ کی رات کو معاہدے کے مطابق بارہ بجے سٹیج ختم کرنے کی نوبت نہیں آئے گی کیونکہ اس وقت تک نیا پاکستان بن چکا ہو گا، انقلاب فرانس و روس کی یاد تازہ ہو چکی ہو گی ـ گردنیں کٹ چکی ہوں گی اور ملک دشمن راہ فرار اختیار کر رہے ہوں گے ـ عوام کو مکمل سیکیورٹی میسر آ چکی ہو گی، ہر دروازے پر ایک ایک طالب حفاظت کے لیے کھڑا ہو گا ـ جو کل تک جان کے دشمن تھے، کل سے جان کے محافظ ہوں گے، یہ ہوتی ہے اصل تبدیلی ـ جائیداد کے تمام مسائل عبدالعلیم خان صاحب اپنی نگرانی میں حل کروا رہے ہوں گے ـ ملا فضل اللہ اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ایک ہی گھاٹ پر پانی پی رہے ہوں گے، بشرطیکہ علامہ قادری صاحب کو دوبارہ انقلاب نہ آ گیا ہو ـ
قصہ مختصر، تبدیلی مکمل طور پر آ چکی ہو گی ـ کارکن جو ابھی تک زیادہ تر فیس بک اور ٹویٹر پر دوسروں والدہ و ہمشیرہ کو ایک کرنے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں، زمین پر مخالفین کی طبیعت درست فرما رہے ہوں گے ـ امریکہ پاکستان سے قرضہ مانگ رہا ہو گا، روس پاکستان کو گرم پانی تک راستہ دینے پر تیار ہو گا، افغانستان اپنی بندرگاہیں پاکستان کے سپرد کر چکا ہو گا ـ بھارت، کشمیر کا ذکر ہی کیا جونا گڑھ، مناور اور حیدر آباد دکن پاکستان کے حوالے کر چکا ہو گا اور اس کے علاوہ پاکستان کے کہنے پر تبت کو چین کا حصہ بھی تسلیم کر چکا ہو گا ـ
لیکن، یہ سب تبدیلیاں تو ثانوی ہیں، اصل تبدیلی یہ ہے کہ اردو زبان ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو چکی ہو گی ـ کیونکہ کپتان کو ن سخت ناپسند ہے اس لیے کم از کم فوری طور پر اردو سے حرف ن، حرفِ غلط کی طرح مٹ چکا ہو گا ـ کپتان فوری طور پر خود کو کپتا عمرا خا کہلوائیں گے، شاہ محمود قریشی ملتا کی تقدیر تبدیل کر چکے ہوں گے ـ شیریں مزاری- شیری مزاری، نواز شریف - واز شریف، چوہدری نثار - چوہدری ثار اور کارکن کارک بن چکے ہوں گے، اور تو اور ن اس قدر مٹ جائے گا کہ نیا پاکستان بھی یا پاکستا کہلائے گا، آخر اور کچھ نہیں تو نام کی ہی تبدیلی یوٹوپیا بنانے کے لیے کافی ہے ـ