جمعہ، 30 جنوری، 2015

وعدہء الست

اے عرشِ معلٰی پہ متمکن رگِ جاں سے قریب تر خدا
جسموں کے جہنم کے الاؤ میں جلتی روحوں سے
وعدہء الست دوبارہ لے لے
نفس کی بادِ صرصر کے مسموم تھپیڑے
جسم کو چھید کر روح سے پار ہو رہے ہیں
جو گُل کھلائے تھے کسی نے کسی آگ میں کبھی
ایک ایک کر کے سبھی انگار ہو رہے ہیں
سانپ اژدہا بن چکا اور آدم کے بہکاوے میں ہے
بازارِ مصر میں ہاروت و ماروت نیلام ہو رہے ہیں
اے جبار و قہار اے رحیم و کریم تر خدا
وعدہء الست دوبارہ لے لے
شائد کہ سزا یافتہ ارواح کے لیے
اس بار عہد شکنی ممکن نہ ہو

** الست بربکم: وہ اقرار جو خالق کائنات نے تمام ارواح کو جمع کرکے لیا تها کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ جس پر تمام ارواح نے اقرار کیا تها کہ بےشک اے اللہ آپ ہمارے رب ہیں۔

ہفتہ، 24 جنوری، 2015

تباہی ہے تباہی ہے تباہی

اتنی بھاری گیندیں کبھی نہ اٹھائیں تھیں، سچ ہے یہ گیندیں کسی بھی بھاری ذمہ داری سے بھاری ہیں۔ خلوصِ دل سے خیر خواہی بھی ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ مگر حضورِ والہ! اتنی بھاری گیندیں کبھی نہ اٹھائیں تھیں۔
یہ اتنی خیر خواہی قبلہ گاہی
تباہی ہے تباہی ہے تباہی
جنگ کے ہنگام میں سپہ سالار کی تبدیلی درست نہیں ہوتی۔ ہٹلر نے رومیل کو بدلہ، انجام تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ سو ضرورت تو تھی کہ سابقہ سپہ سالار کو ہی توسیع دی جاتی۔ کیا شاندار آدمی ہے ۔ کتب بینی کا ذوق، ہر قسم کی کتب پڑھنے والا۔ فدوی نے اکثر سپہ سالار کو گلیمر کہانی اور چترالی کا مطالعہ کرتے پایا۔ طلب کی درخواست پر شانِ بےاعتنائی سے جواب دیا، دے تو دوں مگر دو وجوہات کی بناء پر انکار ہے۔ اول، تم کتاب پڑھ کر واپس نہیں کرتے۔ دوم، بچے ایسی کتابیں نہیں پڑھتے۔ یہ ہوتی ہے نگاہ اور ُدوربینی۔
چُست و چوبند، ہمہ وقت تیار آدمی تھا سپہ سالار۔ یہ ہلکی پُھلکی گیندیں۔ فدوی بھی بہت آسانی سے اٹھا لیتا تھا اور کپتان تو ہے ہی سپورٹس مین۔ چستی کا یہ عالم کہ چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بھی نگاہ سے اوجھل نہ ہوتا۔ چاہے وہ جنجوعہ اینڈ کیانی کو ٹھیکہ ملنے کا ہو یا اس کے بل کی ادائیگی کا۔ تمام معاملات کو بروقت ذاتی نگرانی میں حل کرواتا۔
مگر ناعاقبت اندیشی کی انتہا دیکھیے، عین جب جنگ کا ہنگام اپنے عروج پہ پہنچنے کو تھا، سپہ سالار بدل دیا گیا۔ درویش کا فرمان تھا، اگر سپہ سالار کو وقت دیا گیا اور حق تلفی نہ کی گئی تو یہ بڑا ہو کر ضرور بڑا کام کرے گا، مگر امید، نہ ہونے کے برابر۔ کہ ناعاقبت اندیش وزیراعظم اور نااہل مشیران سے خیر کی توقع عبث۔ درویش کا کہا سچ ثابت ہوا۔

حسرت ان غنچوں پر جو بِن کِھلے مُرجھا گئے

یا پھر

یہ پُھول کِھلا ضرور مگر کِھل کر مسکرا نہ سکا۔

سپہ سالار بدل دیا گیا۔ گویا جنگ کے سر سے آسمان اور پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی گئی۔ ناعاقبت اندیشی حضور ناعاقبت اندیشی۔ نئے سپہ سالار کے لیے تین نام سامنے آئے، جسے نہ چننا چاہتے تھے، وہی چنا گیا۔ وجیہ، پُراعتماد، بانکا، سجیلا، چھیل چھبیلا کرنیل سی جرنیل نی۔ خود اعتمادی کا یہ عالم کہ اعلان سے پہلے ہی وزیراعظم کو بتا دیا کہ مجھے سپہ سالار بننا ہے، نہ جائے آمدن نہ پائے رفتن، وزیراعظم کو طوہاً کراہاً دستخط کرنے ہی پڑے۔
مجبوراً دل کو تسلی دی کہ اب یہی حقیقت ہے، حقیقت کو تسلیم کر لینا ہی بہتر۔ نئے سپہ سالار کے عزیز، دوست احباب اور اقرباء کو ڈھونڈا، رابطہ کیا۔ نئے سپہ سالار کی خامیاں پوچھیں۔ جواب آیا، کوئی نظر ائے تو بتائیں (سپہ سالار کی خامیاں بھی کوئی بتاتا ہے؟ اگر انہوں نے بتائیں بھی ہیں تو یہاں کیوں تحریر کروں) جی کو تسلی ہوئی، خوبیاں سنیں اور تحریر میں محفوظ بھی کر لیں کہ کسی مناسب وقت پر احاطہء تحریر میں لاؤں۔
عرصہ لگا کر تمام بیان شدہ خوبیوں کو ازبر کیا اور کچھ اپنی طرف سے ملائیں کہ بھلا کوئی سپہ سالار ہماری بیان کردہ صفات سے محروم کیوں ہو۔ بڑے گھر حاضری کا قصد کیا، اور قصد بھی یوں کہ خود سے عہد کیا کہ بڑے گھر حاضری کے لیے گاڑی پر جاؤں مگر بڑے گھر سے باہر ہی جوتے اتار کر، ننگے پاؤں گھر حاضری دوں۔ یادش بخیر، اس میں احترام سے زیادہ یہ سوچ، یہ فکر کارفرما تھی کہ سپہ سالار گجراتیا ہے۔
حاضری دی، جو خوبیاں ازبر تھیں وہ بھی بیان کیں۔ حافظے میں موجود تمام قصائد بھی نذر کیے مگر جواب میں یہی فرمان ہوا۔ آئے کیوں؟
اتنی بھاری گیندیں کبھی نہ اٹھائیں تھیں، سچ ہے یہ گیندیں کسی بھی بھاری ذمہ داری سے بھاری ہیں۔ خلوصِ دل سے خیر خواہی بھی ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ مگر حضورِ والہ! اتنی بھاری گیندیں کبھی نہ اٹھائیں تھیں۔
یہ اتنی خیر خواہی قبلہ گاہی
تباہی ہے تباہی ہے تباہی