بدھ، 16 نومبر، 2016

Entropy

ترتیب کا واہمہ تقدیر سے سوا ہے
اک چیز اٹھانے سے ترتیب بدل جاتی ہے
اک نئی ترتیب نمو پاتی ہے
اس چیز کو وہیں لوٹانے سے
پرانی ترتیب بحال نہیں ہوتی
ہاں! نئی ترتیب ضرور بےترتیب ہو جاتی ہے
چاند ستارے گھوم گھما کر پھر لوٹ آتے ہیں
اس بے ترتیبی میں زمیں بھی چکراتی جاتی ہے
کہکشاں مسافر ہے، کائنات مسافر ہے
نقطے سے آغاز ہوا، انتہا لامتناہی ہے
یہ مفروضہ بھی راسخ ہے کہ
انتہا کچھ بھی نہیں
لوٹ کے آغاز کو آنا ہے
کیا پھر سے کن فیکون کہلوانا ہے؟

اتوار، 6 نومبر، 2016

محب

بہت سادہ، بہت عمیق جیسے چھوٹی بحر میں غالب  کی لائن
‏فارہہ، صوفیہ، نہ شہناز
زیدی، ثروؔت، جوؔن کی سوچ سے بڑھ کر پرخیال
مستعار لے جس سے گلزاؔر اپنے تمام استعارے
ساؔغر کی تلخی کے زہر سے، ساؔحر کی لفاظی  کے سِحر سے پرے
بدر کی نمکینی، محسن کی شیرینی سے تھوڑا ہٹ کے
بابر کے عشرے کی طرح ترو تازہ
‏اکھیوں مں صبح صادق سی چمک، گالوں پہ شفق شام سی
دید میں حسنِ تام ہے وہ نہ شنید میں عام سی

بدھ، 5 اکتوبر، 2016

نتیجہ

پیرا سائیکالوجی (Parapsychology) اور مابعد الطبعیات (Metaphysics) عمومی طور پر ہم عام لوگوں کے لیے فقط قصے کہانیوں کی باتیں ہیں۔ کچھ لوگ ان پر اعتقاد بھی رکھتے ہیں، اور ایسے لوگ آج کل کے دور میں عموماً جعلی اور ڈبہ پیروں کے چنگل میں جا پھنستے ہیں۔ لیکن یہ صرف ماورائی اور قصے کہانیوں کی بات نہیں ہیں، ان میں حقیقت اور سچائی موجود ہے۔ جو لوگ پیراسائیکالوجی اور مابعد الطبعیات پر عبور حاصل کر لیتے ہیں، وہ عام لوگوں میں کھلتے نہیں ہیں، کیونکہ ان کی دنیا ہی الگ ہو جاتی ہے۔

یہ واقعہ جو میں بیان کرنے لگا ہوں، اس کی بنیاد بھی ایک خاتون کی پیرا سائیکالوجی اور مابعد الطبعیات میں دلچسسپی، محنت اور اس کے بعد ان کو ملنے والے منفرد تجربے پر ہے۔

کچھ سال قبل ایک امریکی خاتون کو ان علوم میں دلچسپی پیدا ہوئی، ابتدائی طور پر چند کتب پڑھنے کے بعد اس نے خود سے ان علوم کو سیکھنے کی تگ و دو شروع کر دی۔ اس نے انٹرنیٹ پر چند ایسی ویب سائیٹس کی ممبرشپ بھی حاصل کی، جہاں اس کے ہم شوق افراد موجود تھے، وہاں اس کی ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی، جو ان علوم پر کافی دسترس حاصل کر چکا تھا۔ دونوں کے درمیان پیغامات کا تبادلہ شروع ہوا اور قربت بڑھتی گئی۔

چند ایک ملاقاتوں کے بعد نوجوان نے خاتون کیتھی کو بتایا کہ اگر ان علوم پر واقعی دسترس حاصل کرنی ہے تو ہمیں ہمالیہ کی ترائی میں جانا پڑے گا، وہاں دنیا کے سب سے کامل ماہرین موجود ہیں، جو ان علوم کی خاطر دنیا تیاگ چکے ہیں۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہاں سے واپسی کے بعد وہ شادی کے بندھن میں بھی بندھ جائیں گے۔

سفری تیاریوں کے بعد یہ لوگ ہمالیہ کی ترائی میں پہنچ گئے اور کسی استاد کی تلاش شروع کر دی۔ کچھ عطائیوں کے ہاتھوں بیوقوف بننے کے بعد سچی لگن کے سبب آخرکار ان کو ایک ایسی شخصیت مل گئی جسے ان علوم میں جامعہ کا درجہ حاصل تھا۔ اس شخص نے ان کی تربیت کی حامی بھری اور ان کی تعلیم شروع ہو گئی۔ ہوا یوں کہ جیسے جیسے تربیت کٹھن ہوتی گئی، لڑکے جارج کا دل اٹھتا گیا مگر کیتھی کے اندر مزید علم حاصل کرنے کی لگن بڑھتی گئی۔

جارج نے کئی بار کیتھی سے کہا کہ ہم نے کافی کچھ سیکھ لیا ہے، اب ہمیں واپس امریکہ چلنا چاہیے مگر کیتھی ہمیشہ انکار کر دیتی۔ آخر ایک وقت ایسا آ گیا کہ جارج نے کیتھی سے صاف کہہ دیا کہ وہ تو سہولیات سے عاری اس علاقے سے تنگ آ گیا ہے اور واپس امریکہ جا رہا ہے۔ اگر کیتھی تین ماہ کے اندر واپس نہ آئی تو وہ کسی اور سے شادی کر لے گا۔ کیتھی نے کہا کہ وہ کوشش کرے گی لیکن وعدہ نہیں کر سکتی اور اگر وہ تین ماہ میں واپس نہ پہنچی تو جارج کسی سے بھی شادی کرنے کو آزاد ہو گا۔

جارج واپس چلا گیا اور کیتھی دوبارہ تربیت میں ڈوب گئی۔ تین ماہ گزر گئے اور کیتھی کو احساس بھی نہ ہوا۔ وہ تربیت اور مشق میں اتنا غرق ہوئی کہ نہ جانے کب اس نے خیال خوانی یعنی ٹیلی پیتھی پر بھی عبور حاصل کر لیا۔ جب اس کے استاد کو پتہ چلا تو اس نے کیتھی کو خبردار کیا کہ اب وہ اس دائرے میں داخل ہو چکی ہے جو انتہائی خطرناک ہے، کیونکہ اس کی اس صلاحیت کا حکومت اور مجرم دونوں فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ کیتھی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی اس صلاحیت کا کبھی استعمال ہی نہیں کرے گی، مگر اپنی مشقیں جاری رکھے گی۔

استاد کے مشورے سے مزید سخت مشقوں کے لیے کیتھی ہمالیہ کے ایک برفانی غار میں منتقل ہو گئی اور اس نے آگ پر پکا ہوا کھانا بھی چھوڑ دیا۔ اب اس کا گزارہ فقط کچی سبزیوں، پھلوں اور دودھ پر تھا۔
مشقوں کے دوران کیتھی کو یہ احساس ہوا کہ ہم جو کچھ سوچتے ہیں، وہ سوچ مقناطیسی کشش کی طرح اپنا ایک دائرہ بناتی ہے، جس سے اس کے اردگرد بیٹھے لوگ متاثر ہوتے ہیں، اگرچہ اس سوچ کو الفاظ کی شکل نہ بھی دی جائے۔ کیتھی نے سوچا کہ جب ہماری سوچ اپنا اثر رکھتی ہے تو اس کے ردعمل میں بھی کوئی سوچ پیدا ہوتی ہو گی، کیوں نہ کوئی ایسا طریقہ نکالا جائے کہ ہماری سوچ کے ردعمل میں جو سوچ پیدا ہو، وہ خودبخود پہلے سوچنے والے فرد کے دماغ تک اسی مقناطیسی سگنل کے ذریعے پہنچ جائے۔

مروجہ مشقوں اور تربیت میں کیتھی کو اس کا کوئی حل نہ ملا تو کیتھی نے خود سے کچھ مشقیں شروع کر دیں، اس نے اس دوران خیال خوانی کے زریعے جارج کا حال بھی پتہ کیا تھا۔ جارج نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی اور کیتھی کا منتظر تھا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی سچی محبت ایک نہ ایک دن کیتھی کو ضرور واپس لائے گی۔ چھ مہینے کی مسلسل مشقوں کے بعد کیتھی اس قابل ہو گئی کہ اپنی سوچ کے ردعمل میں پیدا ہونے والی سوچ کو مخصوص کر لے مگر یہ ردعمل ابھی تک الفاظ کی صورت میں اس کے ذہن میں ابھر نہ رہا تھا۔ کیتھی نے مشقیں مزید سخت کر دیں۔ ایک دن نو گھنٹے کی مسلسل مشقوں کے بعد، کیتھی کے دماغ میں سوچ پیدا ہوئی کہ آج مجھے آگ پر پکا ہوا کچھ کھانا چاہیے، لیکن کیتھی کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس کو اپنی تپسیا کی کامیابی کا یقین ملا، کیتھی کی سوچ کے جواب میں فوراً ہی کیتھی کے دماغ نے ایک سگنل کیچ کر کے اسے الفاظ کی شکل دی۔ وہ الفاظ کچھ یوں تھے:

"Wajid Rasool Malik Likes This."۔