ہفتہ، 28 مارچ، 2015

خواب ۔ گلزار کی نظم کی پیروڈی

صبح صبح اک زور کی دستک پہ دروازہ کھولا
دیکھا سسرال سے سالے آئے تھے
آنکھوں میں خون تھا اُن کے
چہرے غصے سے تمتائے
پاؤں چُومے، ٹھوڑی کو ہاتھ لگائے
اور سالوں سے تھپڑ گھونسے کھائے
آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آئے
سالے مجھے پھینٹی لگانے آئے تھے
آنکھ کھلی تو ہسپتال میں تھا
جسم ابھی تک چٹخ رہا تھا
چوٹوں کا درد ابھی گیا نہیں تھا
خواب تھا شاید، خواب ہی ہو گا
سنا ہے سسرال میں کل رات تھی پارٹی
سسرال میں کل رات ہم زلف کی طبیعت صاف ہوئی ہے