جمعہ، 20 جون، 2014

سانحہء ماڈل ٹاؤن پر غیر جذباتی تجزیے کی کوشش

ماڈل ٹاؤن لاہور میں جو کچھ ہوا، اس پر بلاشبہ سوائے اظہارِ افسوس کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی جانوں کے ضیاع کا دفاع کرنا نہ صرف ایک قابلِ مذمت فعل ہے بلکہ انسانیت کے مقام سے گرا دینے والی حرکت ہے۔ جو بھی اس قسم کی قبیح حرکت کرے وہ بھی قاتلین جیسا مجرم ہے۔
تجاوزات یا بیریئر ہٹانے کی کوشش کے درمیان پولیس جو کہ انتظامیہ کا حصہ ہے اور پاکستان عوامی تحریک جو کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیروکاروں کی جماعت ہے جھڑپیں ہوئیں جن کے نتیجے میں عوامی تحریک کے کارکنان کی جانیں گئیں۔ اب ذرا غیرجذباتی طور پر اس سانحے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ پولیس کی مجوزہ کوشش یا تو قانونی طور پر درست تھی یا غلط تھی، ان دو باتوں کے سوا کوئی تیسرا راستہ نہیں تھا۔ ان ہر دو صورتحال میں عوامی تحریک کے پاس درج ذیل راستے موجود تھے۔
۱۔اگر پولیس کا آپریشن غیرقانونی تھا تو پولیس کو بیریئر ہٹانے دیتے اور بعد میں عدالت کے ذریعے اپنا حق لے لیتے۔
۲۔ اگر پولیس کا آپریشن قانونی تھا تو پولیس کے ساتھ تعاون کرتے اور انہیں بیریئر ہٹانے دیتے۔
۳۔ آپریشن کے قانونی و غیرقانونی ہونے سے قطعءنظر پولیس کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کرتے اور ان کو بیریئر ہٹانے سے روکتے۔
یہ بات میں قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ عوامی تحریک نے کونسا راستہ اختیار کیا۔
اب آتے ہیں انتظامیہ کی طرف، انتطامیہ کے پاس بھی کچھ راستے موجود تھے، لیکن ایک بات طے ہے کہ انتطامیہ نے آپریشن کے لیے جو وقت چنا وہ بالکل غلط تھا۔
۱۔ عدالتی بیلف کے ساتھ دن کی روشنی میں جاتے اور بیریئر ہٹا دیتے۔
۲۔ عوامی تحریک کے جلسے جلوس ختم ہونے کے بعد بیریئر ہٹا لیتے۔
۳۔ مزاحمت کی صورت میں امنِِ عامہ کے وسیع تر مفاد میں پیچھے ہٹ جاتے اور مقدمات کا اندراج کر کے عدالتوں کے ذریعے سزا دلواتے۔
۴۔ مزاحمت کی صورت میں، طاقت کا استعمال کر کے اپنا فیصلہ نافذ کرتے۔
اب یہ بھی میں قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ انتطامیہ نے کونسا راستہ اختیار کیا۔
اب آتے ہیں مقصدِ تحریر کی طرف، ہماری اکثریت اس بات سے متفق ہوگی کہ سوائے جابر ترین آمریتوں کے کوئی حکومت یہ نہیں چاہے گی کہ اس کے دور میں عوام اور انتظامیہ کے درمیان تصادم ہو اور انسانی جانوں کا ضیاع ہو، اس سے نہ صرف امن و امان میں نقص پڑتا ہے، کاروبارِ ریاست معطل ہو جاتا ہے بلکہ حکومت کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ پنجاب میں پچھلے چھ سال سے مسلسل مسلم لیگی حکومت ہے اور اس عرصے میں تقریباﹰ ہر سیاسی جماعت نے عموماً پورے پنجاب اور خصوصاً لاہور میں بہت بڑے بڑے جلسے کیے ہیں، لیکن کسی بھی جگہ ایسا اندوہناک واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ تحریکِ انصاف کی نسبت عوامی تحریک کی عوامی حمایت کئی سو گنا کم ہے اور تحریکِ انصاف مسلم لیگ کی سب سے بڑی ناقد بھی ہے مگر ان کے ساتھ بھی کبھی طاقت کا استعمال نہیں کیا گیا، تو یہاں ایسا کیا ہوا کہ نوبت خون خرابے تک آگئی۔ میری ناقص رائے میں، جب عوامی تحریک کی طرف سے مزاحمت کی گئی تو کچھ ایسے واقعات پیش آئے ہوں گے کہ پولیس نے جذباتی ہوکر طاقت کا بے جا استعمال کیا۔ عوامی رابطے اور برقیاتی میڈیا پر بہت سی تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں پولیس گردی بھی واضح ہے اور عوامی تحریک کی طرف سے پتھر اور پٹرول بمبوں کا استعمال وغیرہ بھی۔
اس واقعے کے بعد جو کچھ ہوا وہ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں، پنجاب حکومت نے ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کی درخواست دی گئی مگر عوامی تحریک کی طرف سے اسے یکسر مسترد کردیا گیا، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ رویہ بہت خطرناک ہے، جب آپ سوائے فوج کے کسی ریاستی ادارے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تو عدل کیسے ہوگا، کیونکہ آئینی طور پر فوج کا کام عدل کرنا نہیں بلکہ ریاست کی حفاظت کرنا ہے، عدل کرنا عدلیہ کا کام ہے اور یہ انتطامیہ سے بالکل الگ ہے۔
آخر میں چند سوالات چھوڑے جا رہا ہوں جو کہ میرے اور مجھ جیسے بہت سے شہریوں کے ذہن میں پیدا ہوئے ہیں۔
۱۔ شہبازشریف صاحب، آپ اس ملک کے سب سے زیادہ کام کرنے والے وزیراعلٰی ہیں، اور انتظامی امور پر آپ کی گرفت بیحد مضبوط ہے، آپکی موجودگی میں اتنا بڑا سانحہ ہوگیا اور آپ کیسے بےخبر رہے؟
۲۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب، آپ اپنی سیاست کا مرکز آئین کو بتاتے ہیں تو برائے مہربانی آئینی حدود میں فوج، عدلیہ، مقننہ اور انتطامیہ کی حیثیت بھی بتائیں؟
۳۔ آپ خود کو شیخ الاسلام بھی کہلواتے ہیں تو ذرا یہ بھی بتا دیں کہ کونسا اسلام مردوزن کے اس طرح کے مشترکہ اجتماعات کی اجازت دیتا ہے؟
۴۔ اور اگر ممکن ہو تو یہ لازمی بتائیے گا کہ کس اسلام کی رو سے آپ کے اہل و عیال تو گھر میں تھے مگر آپ کے مریدین مرد و خواتین باہر ریاستی اداروں کو چیلنج کر رہے تھے؟

 شکریہ