منگل، 2 جون، 2015

نصیحت

موڑ مڑتے ہوئے اس نے گاڑی کی رفتار آہستہ کی اور بائیں ہاتھ جگماتی تین عمارتوں کو دیکھا۔ ہاتھ بڑھا کر، ڈیش بورڈ پر پڑا ہوا کارڈ اٹھایا۔ شادی ہال کا نام پڑھا، گھڑی پر وقت دیکھا اور ایک سکون بھری سانس لی۔ وہ کارڈ پر دئیے ہوئے وقت سے صرف پندرہ منٹ لیٹ تھا۔ اسے یقین کی حد تک امید تھی کہ وہ اپنے بہترین دوست کے ولیمے پر وقت پہ ہی پہنچ گیا ہے اور ابھی تک سوائے دلہے کے گھر والوں کے شادی ہال میں کوئی بھی نہ پہنچا ہو۔
اُس نے گاڑی، دوسرے نمبر والے شادی ہال کے پاس ایک ایسی جگہ پارک کی، جہاں سے واپسی پر رش کے باوجود گاڑی نکالنے میں دشواری نہ ہو۔ ساتھ ہی اس نے دل میں سوچا کہ جلدی آنے کا یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ پارکنگ کے لیے مرضی کی جگہ مل جاتی ہے۔ گاڑی بند کرنے سے پہلے، اس نے بیک ویو مرر میں اپنا جائزہ لیا، جیبی کنگھا نکال کر بال ایک بار پھر درست کیے۔ ساتھ والی سیٹ پر رکھا چھوٹا بیگ کھولا، اس کی عادت تھی کہ وہ کسی فنکشن پر یا دوسرے شہر جاتے مکمل تیاری کے ساتھ جاتا تھا، اپنا ٹراؤزر ٹی شرٹ ایک چھوٹے بیگ میں ساتھ لے جاتا تھا ۔ واپسی پر وہ کپڑے تبدیل کر کے ٹراؤزر ٹی شرٹ پہن لیتا تھا کیونکہ اس لباس میں وہ زیادہ پرسکون رہتا تھا، زیادہ دیر تک فارمل کپڑوں میں اسے الجھن ہوتی تھی۔ اس بیگ میں اس نے سفری ضروریات کی چھوٹی موٹی چیزیں بھی رکھی ہوتی تھیں۔ خیر، اس نے بیگ کھولا، فرانس سے خصوصی طور پر منگوایا ہوا اپنا پسندیدہ پرفیوم نکالا اور اچھی طرح کپڑوں پر سپرے کیا۔ پھر آفٹر شیو لوشن نکالا اور وہ بھی اچھی طرح اپنے چہرے پر تھتھپایا۔ بیگ کی زپ بند کی۔ گاڑی بھی بند کی۔ بیگ لیکر باہر نکلا، بیگ ڈگی میں رکھ کر ڈکی بند کی اور شادی ہال کی طرف بڑھا۔
وہاں اس کی توقع کے عین مطابق معدودے چند لوگ موجود تھے۔ اس کا دوست اپنے والد اور بڑے بھائی کے ساتھ داخلی دروازے پر کھڑا مہمانوں کا استقبال کر رہا تھا۔ ولیمے کا سُوٹ جو اس نے اپنے دوست کے لیے پسند کیا تھا، وہی سُوٹ پہنے خوب جچ رہا تھا۔ یونیورسٹی دور کے بہترین دوست تھے دونوں، اور وہیں انہوں نے کسی روز کسی رو میں بہہ کر یہ عہد کیا تھا کہ وہ اپنی اپنی شادی پر ایک دوسرے کی مرضی کا سوٹ پہنیں گے۔ اس لیے جب اس دوست کی شادی طے ہوئی تو اس نے حسبِ وعدہ اس کے ساتھ جا کر سُوٹ خریدا، سُوٹ کے پیسے اس کے سسرال نے دئیے تھے۔ شاید یہ کوئی رسم تھی کہ ولیمے پر دلہن، لڑکے والوں کی طرف سے دیا گیا جوڑا پہنے گی اور دلہا لڑکی والوں کی طرف سے۔
یہ سب یاد کرتے ہی اس کے چہرے پر بےاختیار ایک مسکراہٹ ابھری، اور وہ اپنے دوست کی طرف گرمجوشی سے بڑھا۔ دوست نے بھی اسے دیکھا تو ایک شرمیلی مسکراہٹ اس کے چہرے پر ابھری اور وہ بھی اس سے ملنے کو آگے آیا۔ دونوں دوست گرمجوشی سے گلے ملے، اور اس نے دوست کے کان میں سرگوشی کی، "ہاں بھئی، کیا بنا؟ کھانا ہے کہ ولیمہ؟ پتہ نہیں کیا ہوا، دوست کا مُوڈ ایک دم بدل گیا، اس نے خشکی سے کہا! یار تم ہال کے اندر نہ جانا، یہیں ایک سائیڈ پہ انتظار کرو، میں فری ہو جاؤں تو تفصیلی بات کرتے ہیں۔
اس کو عجیب سا تو لگا مگر دوست کی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے سوچا کہ دوست کے والد اور بھائی کو مبارک دے لے تو پھر ایک سائیڈ پہ رک کر انتظار بھی کر لے گا اور ایک دو سگریٹ بھی پی لے گا۔ اس نے دوست کے والد کو سلام کیا، گلے ملنے کی کوشش کی تو انکل نے کافی سرد مہری سے اسے روک دیا۔ ساتھ ہی دوست کے بڑے بھائی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف لے جا کر کہا کہ آپ یہاں انتظار کریں، آپ کی وجہ سے لوگ ڈسٹرب ہو رہے ہیں۔
اس کو بہت سبکی محسوس ہوئی، لیکن پھر خیال آیا کہ دوست کی فیملی پردے کی کافی پابند ہے، شاید مستورات نے گزرنا ہو، اس لیے ایسا کہا۔ انہی سوچوں میں گم اس نے سگریٹ سلگا لیا اور انتظار کرنے لگا کہ ابھی کوئی دوسرا دوست آئے گا تو محفل جم جائے گی۔ اتنی دیر میں شور بلند ہوا کہ مہمان آ گئے ہیں۔ بھابھی کے گھر والوں کا استقبال ہوا اور سب لوگ ہال کے اندر چلے گئے۔ یہ وہیں کھڑا سوچ رہا تھا کہ ہوا کیا ہے۔ بےعزتی کے احساس سے اب اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اور کوئی دوست بھی ابھی تک نہیں آیا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب اندر جا کر دوست کو ملے، سلامی دے اور اجازت لے، اور ساتھ ہی دل میں یہ عہد کیا کہ یہ اس دوست کے ساتھ آخری ملاقات ہو گی۔ اتنی توہین کے بعد، دوستی جاری رکھنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
یہ عہد کرتے ہی وہ ہال کی طرف بڑھا، دروازے سے اندر کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ کھانا کھل چکا تھا اور لوگ کھانے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ دلہا بھی اپنے کزنز کے ساتھ ایک میز کے گرد بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ توہین کا احساس دوچند ہو گیا۔ وہ ہال کے اندر داخل ہونے ہی لگا تھا کہ اچانک دلہے کے بھائی کی آواز آئی کہ چوکیدار، اسے روکو۔ لیکن اس سے پہلے کہ چوکیدار اس تک پہنچتا، یہ لپک کر ہال کے اندر پہنچ گیا۔
ایک دم ہال میں سناٹا چھا گیا۔ مانو، سوئی گرے تو آواز آئے۔ پھر ایک دم ملی جلی آوازیں بلند ہوئیں، یہ کون ہے؟ ایک دو نوجوان اس کی طرف بڑھے مگر ایک دم سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے، جیسے انہیں چکر آ رہے ہوں۔ خواتین کے حصے سے آواز آئی، ہمارا سانس بند ہو رہا ہے۔ دلہا ایک دم چکرا کر گرا اور بیہوش ہو گیا۔ ہال میں ایک ہڑبونگ مچ چکی تھی۔ لوگ باہر کی طرف بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے مگر، بےسود، دھکم پیل کے سبب کوئی کامیاب نہ ہو رہا تھا۔ لوگ بیہوش ہو ہو کر گر رہے تھے۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ ایسا ہو کیوں رہا ہے۔ اچانک، ایک دم اس کے ذہن میں والدہ کی نصیحت چمکی۔ گھر سے روانہ ہوتے وقت انہوں نے کہا تھا، "گُجروں کی شادی پہ جا رہے ہو، خوشبو لگا کر مت جانا۔"

پیر، 1 جون، 2015

انسان اور تحریکی حصہ سوئم

تحریکی: اوئے انسان! دیکھی پھر ہماری خیبرپختونخواہ کی غیر سیاسی پولیس؟ سابق وزیر اور ANP کے جنرل سیکرٹری میاں افتخار کو قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا۔

انسان: لیکن عدالت میں تو مقتول کے والد نے انہیں بےقصور قرار دیا ہے۔

تحریکی: لیکن ہماری غیر سیاسی پولیس تو دیکھو۔

انسان: تو پھر اس غیر سیاسی پولیس نے تمہارے وزیر علی امین گنڈاپور کو گرفتار کیوں نہیں کیا، جو بیلٹ باکس چوری کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے؟

تحریکی: ہم نے اس کی پارٹی رکنیت معطل کر دی ہے۔

انسان: مگر گرفتار کیوں نہیں کیا، وزیر ہے اس لیے؟

تحریکی: اس نے یہ حرکت پارٹی رکن کے طور پر کی تھی، اس لیے مقدمہ درج ہونے کے باوجود گرفتار نہیں کیا۔ پارٹی نے سزا دے دی نا۔

انسان: اچھا یہ بتاؤ عمران خان تو خیبرپختونخواہ میں وزیر نہیں ہے نا؟

تحریکی: نہیں، کپتان تو ہماری پارٹی کا چئیرمین ہے۔

انسان: اچھا تو اس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پشاور میں جو جلسہ کیا ہے۔ اس پر مقدمہ درج کر کے گرفتار بیشک نہ کرو، مگر اس کی پارٹی رکنیت تو معطل کرو۔

تحریکی: اسی وجہ سے ہم تم انسانوں کے درمیان نہیں آتے۔ تبدیلی کے دشمن ہو تم لوگ۔ سونامی کے آگے بند باندھنا چاہتے ہو۔