منگل، 15 جولائی، 2014

دھاندلی کا شور اور اس کا منطقی انجام

قدیم زمانے سے ہی سازشی عناصر کی ِریت چلی آ رہی ہے کہ کسی بھی اچھی چیز کو برا ثابت کرنے کے لیے تسلسل سے اس کے بارے میں اتنے شکوک و شبہات پھیلا دو کہ لوگ اسے غلط سمجھنے لگیں ـ اس کی ایک بہت بڑی مثال منگول بادشاہ غازان کے وزیر رشید الدین کی ہے، جس کے یہودی ہونے کے بارے میں اتنا پراپیگنڈہ کیا گیا کہ اس کی موت اور تدفین کے بعد اس کے شاگرد اور بادشاہِ وقت غازان کے حکم پر اس کی لاش کو قبر سے نکال کر مسلمانوں کی بجائے یہودیوں کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال دو ہزار تیرہ کے الیکشن کی ہے۔
محاورہ ہے کہ الیکشن میں یا تو ہم جیتتے ہیں یا دھاندلی ہوتی ہے، پاکستان کے سیاسی ماحول پر بالکل صادق آتا ہے۔ جب جب، جو جماعت ہاری اس نے دھاندلی کا ہی شور مچایا ۔ جو جتنے زیادہ فرق سے ہارا، اس کے ساتھ اتنی ہی بڑی دھاندلی ہوئی۔ جن کی ضمانتیں ضبط ہوتی ہیں، وہ بھی دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں۔ سیاسی بلوغت اور شعور کی کمی اس طرزِ عمل کی بڑی وجوہات میں سے ہیں۔ اسی شعوری کمی کی وجہ سے اس مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا۔
دو ہزار تیرہ کے انتحابات کے بعد مسلم لیگ نواز کو واضح برتری حاصل ہوئی اور اس نے مرکز اور پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی۔ ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت تحریکِ انصاف نے حیران کن کارکردگی دکھاتے ہوئے پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں نشستیں لیں اور خیبرپختونخواہ میں ایک اتحادی حکومت تشکیل دی۔ پیپلزپارٹی نے سندھ میں حکومت بنائی اور بلوچستان میں مسلم لیگ نواز نے قوم پرستوں کیساتھ اتحادی حکومت بنائی۔
انتحابات کے کچھ عرصے بعد تحریکِ انصاف کی طرف سے دھاندلی کے الزامات سامنے آئے جس میں چار حلقوں کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا گیا، جسے حکومتی حلقوں میں "روٹین میٹر" کے طور پر لیا گیا۔ اگر متعلقہ نمائندگان کو فوراً مستعٰفی ہونے کا کہہ دیا جاتا اور ضمنی انتحابات کروا دئیے جاتے تو شاید بات وہیں ختم ہو جاتی، لیکن ایسا نہ ہوا۔
دوسری طرف، الزامات لگانے والوں کی سنجیدگی کا اندازہ بھی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو کام الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے کرنے کے ہیں، وہ حکومت سے کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ تاکہ، حکومت اپنی حدود سے تجاوز کرے اور اداروں میں ٹکراؤ پیدا ہو۔ سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جن کیخلاف دھاندلی میں شامل ہونے کے الزامات لگائے گئے، وہ کسی بھی طرح براہِ راست الیکشن کے عمل کا حصہ نہ تھے۔ سابقہ چیف جسٹس پر الزامات کا کوئی ثبوت نہیں اور ایک نشریاتی ادارے کیخلاف الزام تراشی محض اس بات پر ہے کہ اس نے مسلم لیگ کے سربراہ کی جیت کی تقریر نشر کی۔ اس کے علاوہ ایک ملٹری انٹیلیجنس کے بریگیڈیر کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ بھی دھاندلی میں شریک ہیں مگر اب ان کا ذکر بھی نہیں آتا۔ پینتیس پنکچروں کا شوشہ بھی چھوڑا گیا مگر اس کے بارے میں بھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
یہ تمام چیزیں وہ ہیں جو عوامی سطح پر تو بکتی ہیں مگر آئینی و قانونی معاملات میں بغیر ثبوت کے آپ کچھ ثابت نہیں کر سکتے، اور قانون کی ُرو سے ثبوت دینا الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے، ملزم محض اپنا دفاع کرتا ہے۔ ثبوت دئیے بغیر، اب یہ مطالبہ پورے الیکشن پر پھیل گیا ہے اور دوبارہ انتحابات کا مطالبہ کر دیا گیا ہے اور آزادی مارچ کے نام سے چودہ اگست کو اسلام آباد میں دھرنے وغیرہ کا بھی پروگرام ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دھرنے کا منطقی انجام کیا ہو سکتا ہے۔
۱۔ حکومت طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اس مارچ کو شروع ہونے سے پہلے ہی روک دے، مگر اس سے مستقبل میں مزید انارکی پھیل سکتی ہے۔
۲۔ مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد آنے دیا جائے اور وہ پرامن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا کے واپس چلے جائیں۔
۳۔ مارچ کے شرکاء اسلام آباد پہنچیں اور دارلحکومت کو یرغمال بنا کر اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کریں۔
میری رائے میں تیسرے نکتے پر عملدرآمد کے مواقع زیادہ ہیں، کیونکہ کسی لامحدود مدت کے لیے لوگوں کو بٹھائے رکھنا ممکن نہیں۔
تحریکِ انصاف کے سربراہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کوئی غیرآئینی قدم نہیں اٹھائیں گے اور بلاشبہ وسط مدتی انتحابات کا مطالبہ بالکل آئینی ہے ۔ فرض کرتے ہیں کہ ان کا یہ مطالبہ مانتے ہوئے وزیراعظم ایوانِ زیریں تحلیل کر دیتے ہیں تو کیا ہو گا؟ آئین کی ُرو سے وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف باہمی مشورے سے نگران وزیراعظم کا چناؤ کریں گے اور انہی دونوں کے تجویز کردہ چیف الیکشن کمشنر کی زیرِ نگرانی انتحابات ہوں گے۔ کیا وسط مدتی انتحابات کے بعد پھر دھاندلی کا شور شروع ہو گا اور حکومتیں گرتی رہیں گی؟

1 تبصرہ:

Unknown کہا...

tabsara aap ka sola aane durust hey, midterm elections ka koi jawaaz nahi bnta jo jamaat haarey gi wo phir se dhaandli ka shor kere gi, jahan tk 4 halqon ka taluq hey wahan se wahi jeete hein jinko humesha akseriat vote miley hein, agrPTI k saath dhaandli hoti to unko utne vote bhi na milne the jitne miley hein
NA110 se khawaj asif ne 92 hazar or kch vote haasil kiye jbkeh PTI Umer Daar ne koi 71 hazaar or kch vote, ek chhoti si misaal saamne hey