بدھ، 30 جولائی، 2014

کاغذ کے خط

وہ روزانہ ہماری گلی سے گزرا کرتی تھی۔ لڑکپن کا دور تھا، عمر یہی کوئی سولہ سترہ سال تھی میری اور وہ پندرہ سولہ کی ہو گی۔ کچی عمر میں کچھ حادثے جلدی رونما ہو جاتے ہیں، محبت بھی ایک ایسا ہی حادثہ ہے، لیکن یہ حادثہ حسین حادثہ ہوتا ہے یا ایک سانحہ بن کر کئی زندگیوں کو برباد کر دیتا ہے یہ اس کے پر منحصر ہوتا ہے۔
خیر، دل کو وہ بہت بھاتی تھی، بھولی سی معصوم سی، چلتی تو یوں لگتا جیسے پانی سطح پر بہار کی ہوا ہولے سے گزرتی ہے، جیسے گلشن میں بادِ نسیم بھینی بھینی خوشبو بکھیرتی ہے، جیسے دسمبر کی دھوپ زندگی بانٹتی ہے۔ جی چاہتا تھا کہ بس وہ سامنے رہے، عجیب کیفیت ہوتی تھی اس کو دیکھ کر، میں آج تک اس کیفیت کو کچھ نام نہیں دے پایا، شاید اس عمر کی محبت ان نام نہاد کیفیات اور جذبوں سے بالاتر ہوتی ہے۔ مادی و جسمانی ضروریات سے بہت اونچی، بہت مقدس۔
اس سے بات کرنے کو جی بھی چاہتا تھا، لیکن ڈر بھی لگتا تھا کہ کہیں انکار نہ ہو جائے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس کی ایک سہیلی بھی ساتھ ہوتی تھی۔ سہیلی کیا تھی، مجھے تو ہٹلر اور ہلاکو خان کی کوئی قریبی رشتہ دار لگتی تھی۔ شاید ہر محبت کرنے والے کو سہیلیاں ایسی ہی لگتی ہوں، کا ب میں ہڈی کی مانند۔ اس کے چہرے پر ہر وقت بربریت چھائی رہتی یا شاید مجھے ایسا لگتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ راہ چلتے ہر شخص کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور لڑنے مرنے پر آمادہ ہے۔ میں اکثر حیران ہوتا تھا تھا کہ اس قدر معصوم لڑکی کی ایسی جابر و قاہر ِدکھنے والی لڑکی سے دوستی کیسے ہو گئی۔
پھر آخرکار محبت میں وہ مقام آ ہی گیا جب یہ شدت سے یہ احساس ہونا شروع ہو گیا کہ اب اظہار کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اب اگر اظہار نہ کیا تو اس دل کا کوئی چارہ گر نہیں۔ ایک دوست سے مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہیے، دوستوں میں سے سیانا بندہ تھا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس دوست سے حالِ دل تو تمام بیان کیا مگر اسے یہ نہیں بتایا کہ لڑکی کون ہے، کیونکہ وہ بھی اسی گلی میں رہتا تھا اور یہ دھڑکا بھی تھا کہ اگر وہ اسی کی محبت میں گرفتار ہوا تو کوئی غلط مشورہ ہی دے گا جس سے میں اس کے راستے کا کانٹا بننے سے پہلے ہی ہٹ جاؤں گا۔ اس نے تسلی سے تمام حالاتِ دل سنے اور پھر کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا کہ ایک خط لکھ رکھو اور اس میں تمام حالِ دل کہہ ڈالو اور جب وہ گزرے تو اس کے سامنے پھینک دو۔
اب مرحلہ خط تحریر کرنے کا تھا۔ آپ شاید نہیں جانتے میں بچپن ہی سے کافی کاملیت پسند واقع ہوا ہوں۔ خط لکھنے، اور وہ بھی محبوبہ کو، کا کوئی تجربہ نہ تھا سو باتوں باتوں میں ان دوستوں سے جو محبوباؤں کو خط لکھنے میں ماہرینِ فن اور طاق سمجھے جاتے تھے، ان سے خطوط لکھنے کا طریقہ و تکنیک پوچھی اور بہت محنت سے ایک خط تحریر کیا۔ اس خط کو تحریر کرنے کے لیے گھر والوں سے چھپ کر چھت والے کمرے میں بیٹھ کر پہروں سوچا، الفاظ ترتیب دئیے حتٰی کہ لفظوں کی املاء بھی سیکھی کہ اگر کوئی لفظ غلط تحریر ہو گیا اور اس کو صحیح بات نہ پہنچی اور انکار ہو گیا تو کیا ہو گیا۔ خیر، خط تحریر کیا گیا، جذبات کی شدت بیان کرنے کو نیلی روشنائی کی جگہ سرخ روشنائی استعمال کی اور اسے اپنا خون بتلایا۔
اگلی صبح جب وہ گزری تو خط پھینک دیا، خط عین اس کے قدموں میں جا گرا، وہ چونکی، پھر مجھے دیکھا اور مسکرا کر خط اٹھا لیا۔ سہیلی نے کان میں کچھ کہا لیکن اس نے سر ہلایا اور وہ آگے چل پڑیں۔ سہیلی کے چہرے سے یوں محسوس ہوا کہ وہ شدید غصے اور جلن کا شکار ہے اور مجھے قتل کر دینا چاہتی ہے۔ آئینہ دیکھتے یکدم ہی ایک خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہلاکو سہیلی خود ہم میں دلچسپی رکھتی ہو کیونکہ ہم بھی اچھے خاصے ِدکھتے تھے۔ یہ ڈر بھی لگ گیا کہ کہیں وہ سہیلی اس کو غلط مشورہ نہ دے دے اور اس کو مجھ سے ُدور بہے ُدور کر دے، مگر پھر اس کی مسکراہٹ یاد آ گئی تو حوصلہ بڑھا، ایک اور خط لکھنے کی تیاری شروع کر دی اور اس دفعہ ایک ہی پہر میں خط تحریر کر لیا۔
اگلے دن وہ خط بھی اس کے قدموں میں دل کی طرح پھینک دیا۔ ایک مزید مسکراہٹ عطا ہوئی اور حوصلہ مزید بڑھا۔ قصہ مختصر، سات دن لگاتار سات خط پھینکے، مگر مسکراہٹ کے سوا کچھ جواب نہ ملا۔ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ ہر خط اپنی لفاظی، املاء اور اظہار میں پچھلے خط سے بڑھ کر تھا۔ اب مجھے لگتا ہے کہ اگر میں نے یہ خطوط کسی پتھر کی دیوی کو تحریر کیے ہوتے تو وہ بھی جذبات کی شدت و سچائی سے متاثر ہو کر میری محبت کا اقرار کر لیتی مگر وہ نہ جانے کیا چاہتی تھی کہ مسکرا تو دیتی مگر اس سے زیادہ ایک لفظ نہ بولا۔
پھر اسی سیانے دوست سے مشورہ مانگا۔ ساری داستان سنائی مگر اب بھی یہ نہ بتایا کہ لڑکی کون ہے، کیونکہ ڈر وہی تھا جس کا ذکر اوپر ہو چکا۔ ساری بات سننے کے بعد، سیانا تو وہ تھا ہی، وہ بولا کہ دوبدو بات کرو، شاید وہ تمہاری زبانی اقرارِ محبت سننا چاہتی ہے۔ یہ بات دل کو لگی۔
اگلے دن، بہت ہمت کر کے اس کے راستے میں کھڑا ہو گیا، گلی کے موڑ سے وہ نمودار ہوئی، شاید آج میری قسمت اچھی تھی کہ آج وہ اکیلی تھی، اس کی وہ دشمن نما سہیلی اس کے ساتھ نہ تھی۔ دل کو امید ہو چلی کہ آج اپنا ہی دن ہے کیونکہ ایک تو وہ اکیلی تھی اور دوسرا گلی میں ُدور ُدور تک کوئی نہ تھا۔ جب وہ پاس سے گزرنے لگی تو اس کو روک لیا اور گبھراہٹ کے ساتھ کہ کہیں کوئی بزرگ دیکھ نہ لے، جلدی جلدی پوچھا کہ وہ روز میرے خط اٹھا تو لیتی ہے مگر جواب کیوں نہیں دیتی ۔ اس نے خطوط کے ذکر کر بہت حیرت سے مجھے دیکھا اور عجیب اجنبی نظروں سے دیکھا اور پھر اس نے جو جواب دیا وہ آج بھی یاد آئے تو رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔
اس نے کہا، ”باؤ! میں ایتھے کاغذ چنڑ آنی آں"!!!
۔
نوٹ: تحریر کا مرکزی خیال، ایک پنجابی جگت سے مستعار لیا گیا ہے۔

7 تبصرے:

Brain Masalah کہا...

hahahahahahahahahahhahahahahhahah

گمنام کہا...

پاجی معذرت دے نال ماری تسی اس لطیفے دی شکل اچ

گمنام کہا...

چول ای اے

جواد مقصود کہا...

تبصرے کا شکریہ محترم! پسند نہ پسند اپنی اپنی۔

Unknown کہا...

...qissa mukhtasir ye ke pehle tolo tatolo phir ishq mushq ki baat kro ....drop scene zabardast dia hey bilkul ufone ka ishtahaar hey ...Teri Mehrbaani

Mudassir Iqbal کہا...

میں نے تو یہ لائیو ٹائم لائن پر پڑھی ، تجسس اور اگلی ٹویٹ کا انتظار اپنے عروج پر تھا - تارڑ صاحب نے کہا تھا ' داستان گوئی اہل پنجاب کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے'
بے اختیار یہ جملہ یاد آگیا - لوپ ہولز تو بہت نکالے جا سکتے ہیں لیکن ان سے فرق کیا پڑتا ہے ، مثال کے طور پر ہیرو ہیروئین کی تھیلیاں دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ اسے کچرا جمع کرنے والا تھیلا ہی نظر نہیں آیا - دوسرا یہ کہ کچرا چننے والیاں عمومی طور پر میلی کچیلی ہوتی ہیں اور آسانی سے پہچان لی جاتی ہیں - پر وہ محبت ہی کیسی جو ہوش و خرد سے بیگانہ نہ کردے، آخرلیلیٰ کو دیکھنے کے لئے مجنوں کی نظر چاہئے ، ہر ایک کے بس کی تو بات نہیں - بقول شہزاد قیس ----

لیلیٰ کو دیکھ لو تو سمجھو گے ،
قیس کیوں لیلیٰ ، لیلیٰ کرتا ہے

Dr. Umber Nawaz کہا...

Hahahahahah,, bht Aaala... mohbt krty wqt aankhien or dmagh khulli rakhien .. Shukria :D