منگل، 12 اگست، 2014

جذبوں کا قصہ

یہ قصہ شاید محبت کا ہے یا شاید نفرت کا یا پھر شاید حسد کا یا پھر کسی اور جذبے کا اور شاید یہ قصہ ماضی بعید کا ہے یا شاید مستقبل بعید کا لیکن جو بھی ہو یہ قصہ نہ صرف قابلِ بیان ہے بلکہ ایک اٹل حقیقت بھی ـ
اس کہانی میں جو بھی حالات و واقعات پیش آئے ہیں وہ بھی نہ صرف حقیقت پر مبنی ہیں بلکہ تاریخِ بنی نوع انسان میں بارہا بار دہرائے گئے ہیں بلکہ ان کو دہرانا شاید انسانی فطرت و نفسیات کا جزو لازم بن چکا ہے ـ
بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ زمانہ وہ ہے جب انسان ترقی کی معراج پہ پہنچ چکا ہے، دنیا سے غربت و افلاس کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے ـ تعلیم، صحت اور روزگار ہر انسان کی دسترس میں ہے ـ پیدائش کے ساتھ ہی تعلیم و تربیت کی مکمل ذمہ داری ریاست لے لیتی ہے اور اپنا فرض پوری ایماندرای سے ادا کرتی ہے ـ
لیکن اس دور میں بھی ریاستوں کے درمیان باہمی چپقلش جاری ہے ـ ترقی کی انتہا کے باعث ایسے ایسے ہتھیار ایجاد ہو چکے ہیں کہ جن کے تباہ کن اثرات کی نظیر نہیں ملتی ـ جاسوسی کے بھی جدید ترین اور نت نئے نظام وضع کیے جا چکے ہیں ـ لیکن خوش کن بات یہ ہے کہ یہ جاسوسی زیادہ تر دوسری ریاستوں کے عوام دوست منصوبوں کی کی جاتی ہے اور ان کو اپنے عوام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ـ
اسی دورِ معراجِ انسانیت میں ایک ریاست نے دوسری ریاست کے ایک فلاحی منصوبے کو اس کے نفاذ سے پہلے چوری کر لیا ـ جب اس ملک کی حکومت و عوام کو اس کا علم ہوا تو ان میں سخت اشتعال پھیل گیا ـ دوسرے ملک نے بھی اکھڑ پن کا مظاہرہ کیا اور معاملات درست ہونے کی بجائے بگڑتے چلے گئے ـ صلح کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں رائیگاں گئیں ـ
بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ جتنی مرضی ترقی کر لے انسان اپنی فطری ضد اور انا پر بمشکل ہی قابو پا سکتا ہے اور جب ان کے ساتھ وطنیت اور قومیت کا تڑکا لگ جائے تو معاملات مزید بگڑتے ہیں ـ انہی لمحہ بہ لمحہ بگڑتے حالات میں ایک ملک نے دوسرے پر حملہ کر دیا ـ دوسرے نے بھی برابر کا جواب دیا ـ
دنیا جو پہلے امن اور بقائے باہمی کے اصول پر چل رہی تھی، اب واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ـ دونوں ریاستوں کے حلیفوں کے باہمی تعلقات بھی شدید نوعیت کے تناؤ کا شکار ہو گئے ـ بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک اس جنگ کی وجہ سے کئی دوسری ریاستوں کے مابین بھی جنگ چھڑ گئی ـ قصہ مختصر، اس جنگ نے عالمی جنگ کے عفریت کی شکل اختیار کر لی ـ
بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ایک جاسوسی کے واقعے سے عالمی جنگ کا چھڑنا اصل واقعہ نہیں، اصل واقعہ کچھ اور ہے ـ تو کہا جاتا ہے کہ جب تمام انسانیت، دیوانگی کا شکار ہو کر اس عالمی جنگ میں قتل و غارت میں مصروف تھی تو ایسے میں کچھ اصل دیوانے اٹھ کھڑے ہوئے ـ جی ہاں، اصل دیوانے، جنہوں نے ہمیشہ امن و آشتی کی بات کی ہے جنہوں نے آگ میں پھول کھلانے کے سپنے دیکھے ہیں، وہی دیوانے اٹھ کھڑے ہوئے ـ
ان کا تعلق کسی خاص مذہب، قوم اور نسل سے نہیں ـ یہ بس احترامِ انسانیت پر یقین لوگ تھے ـ انہوں نے باقاعدہ ایک عالمگیر تحریک چلانا شروع کی اور لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کہ یہ وحشت سب کچھ برباد کر کے رکھ دے گی ـ قرنوں کے سفر کے بعد حاصل ہونے والی منزل کھو جائے گی ـ لیکن ان کے ساتھ وہی ہوا، جو تاریخ میں ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے ـ ان کو پاگل، غدار وغیرہ کہہ کر پکارا گیا، بھلا اندھوں کے شہر میں بھی کوئی آئینوں کا خریدار ہوتا ہے؟
ان حالات میں ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ یہ اپنے اپنے ملک چھوڑ کر کسی ویران خطے میں جا بسیں جو اس جنگ کی حشر سامانیوں سے محفوط ہو ـ سو ایسا ہی کیا گیا ـ باقی دنیا میں جنگی جنون سر چڑھ کر بول رہا تھا ـ تباہ کن ہتھیار، جن کا ذکر نہ پہلے کبھی کسی نے سنا تھا نہ دیکھا تھا، اس جنگ میں آزمائے گئے اور بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ان ہتھیاروں سے ایسی تباہی پھیلی کہ نہ صرف مہذب دنیا سے تہذیب کا خاتمہ ہو گیا بلکہ ترقی و تہذیب کی معراج کے سنگھاسن پر بیٹھی انسانیت اور انسانوں کا بھی ـ بچے تو صرف وہ دیوانے، جو اس جنگ سے علیحدہ ہو کر کہیں ُدور جا بسے تھے ـ
انہوں جب اپنے ساتھ والوں کا یہ انجام دیکھا تو فیصلہ کیا کہ دنیا کو نئے سرے سے تعمیر کیا جائے اور اس بار دنیا کی بنیاد ان اصولوں پر رکھی جائے جن کا ہم پرچار کرتے ہیں تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں دوبارہ ایسی عظیم تباہی کا شکار نہ ہوں ـ یہ لوگ آپس میں اٹھتے بیٹھتے، انہوں نظریوں اور فلسفوں کا پرچار کرتے اور جو بچے ان کے ساتھ ان کے ذہن میں یہ باتیں نقش کرنے کی کوشش کرتے ـ
اس گروہ میں چند نوجوان بھی تھے جو ان نظریات اور فلسفوں کو لیکر بیحد جوشیلے اور سنجیدہ تھے اور ان نظریات کو مزید بہتر اور قابلِ عمل بنانے کی سوچ میں سرگرداں رہتے ـ ایسے میں ان میں سے ایک نوجوان کو بچھی کچھی انسانیت کے اس گروہ میں موجود ایک لڑکی سے محبت ہو گئی، جی ہاں محبت، وہی محبت جس نے اس تباہ کن جنگ میں بھی کچھ انسانوں میں آدمیت کو باقی رکھا اور نسلِ انسانی کو عنقا ہونے سے بچا لیا ـ وہی محبت، جو ازل سے ابد تک خالق کا مخلوق سے محبت کا ثبوت بھی ہے اور اسی مخلوق سے امید کا نشان بھی ـ یہ وہی محبت تھی جس پہ اس گروہ نے آگے چل کر ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھنے کی ٹھانی تھی ـ
اس نوجوان کو اس لڑکی کے خیالات نے بیحد متاثر کیا اور وہ اکثر سوچتا کہ پرانی دنیا میں اگر عنان اقتدار اس لڑکی کے ہاتھوں میں ہوتا تو شاید وہ ہنستی بستی دنیا آج بھی قائم ہوتی ـ لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ اس مختصر سے گروہِ آدمیت میں کوئی اور بھی تھا جو خود اس نوجوان سے متاثر ہو چکا تھا ـ یہ ایک اور لڑکی تھی جو اس نوجوان کے بارے میں سوچتی تھی کہ اگر پرانی دنیا میں یہ نوجوان معاملات کا ذمہ دار ہوتا تو شاید وہ ہنستی بستی دنیا آج بھی قائم ہوتی ـ
نظریات، خیالات اور فلسفوں کے ارتقاء میں یونہی وقت گزر رہا تھا اور ایک نئی پرامن دنیا کا خواب توانا ہوتا جا رہا تھا کہ ایک دن اس نوجوان نے اپنی محبوبہ کو ایک دوسرے نوجوان کے ساتھ دیکھ لیا اور دیکھا بھی اس حال میں کہ جب وہ محبت میں گم تھے ـ نہ جانے کس جذبے کے تحت بے قابو ہو کر وہ آگے بڑھا اور ایک پتھر لے کر اس دوسرے نوجوان کا سر کچل ڈالا ـ
جب اسے ہوش آیا تو اسے احساس ہوا کہ وہ کیا کر بیٹھا ہے ـ اس کا یہ فعل تو اس کے احساسات و نظریات کے خلاف تھا ـ اس نے خوفزدہ ہو کر وہاں سے بھاگنے میں عافیت جانی تو ایسے میں اس کا ساتھ دینے کے لیے وہ آن موجود ہوئی جو اس کو چاہتی  تھی ـ وہ دونوں وہاں سے فرار ہو گئے ـ
ایک نئی "پرانی دنیا" کی بنیاد رکھی جا چکی تھی ـ
لاش کے پاس ایک لڑکی بے ہوش پڑی تھی اور ایک پرندہ چیخ رہا تھا، شاید وہ کوا تھا ـ

5 تبصرے:

جعفر کہا...

علامت اور روایت دونوں سے کام لیا ہے اور پیچیدگی سی پیدا ہوگئی ہے۔ کہانی میں کہانی ضرور ہونی چاہیے اور اس کے لیے کردار چاہییں۔ میں اسے انشائیہ یا مضمون کہہ سکتا ہوں۔ اور ایک بہت اچھا انشائیہ۔۔ فار دیٹ میٹر۔
لکھتا رہ شہزادے۔
تعریف تو سب کرجائیں گے۔ لیکن میں نے جو محسوس کیا وہ بیان کردیا۔۔

جواد مقصود کہا...

اگر اس کو روایتی انداز میں تحریر کیا جاتا تو شاید جو پیغام میں پہنچانا چاہتا ہوں، وہ کرداروں کی نفسیات میں کھو کر رہ جاتا ـ بے نام کردار رکھنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ کردار کوئی بھی ہو سکتے ہیں ـ میں، آپ، مبشر، عاطف کوئی بھی ـ

Unknown کہا...

بیگ صاحب, جعفر نے تکنیک کی بات کی, میں تخیل کی کرونگا, اور یہی اس تحریر کا "سیلنگ پوائنٹ" بھی ہے,

ایک نئی پرانی دنیا کی بنیاد رکھی جا چکی تھی, یہ فقرہ حاصل تحریر ٹھہرا, اور کسی بھی صاحب خیال اور حساس دل والے کو ہلا دینے کےلیے کافی ہے,

میں چونکہ, جعفر سے پیشگی معذرت, تکنیک سے زیادہ تخیل کا شیدائی ہوں, لہذا اپنی پسندیدگی کا اظہار ہی کرونگا, میرے خیال میں تکنیک بھی اہم ہے, مگر ایک مضبوط خیال کے بغیر, مضبوط تکنیک اپنا وہ اثر نہیں رکھے گی جو ایک مضبوط خیال, مضبوط تکنیک کے بغیر بھی رکھ سکتا ہے,

ایک زاویہ ہے, بہرحال

جواد مقصود کہا...

تکنیکی ضروریات پوری کرنا میرے جیسے ایک نو آموز اور شوقیہ مصنف کے لیے بہت مشکل ٹھہرا، کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ ایک پیغام جو ہے وہ اس طرح پہنچایا جائے کہ لاشعور میںنقش ہو جائے ـ

گمنام کہا...

بہت خوب ۔ ۔ ۔ٹریجک اینڈنگ
کہانی ہوِ یا انشائیہ، افسانہ یا کوئی بھی تحریر.. .اپنے اندر پیغام یوں رکھتی ہو کہ قاری کے دل میں اتر جائے . . .ابہام میں تھوڑی آسانی ہوتی ہے لیکن پیغام پہنچانے کے لئے اصل آمد میں بامقصد اضافہ کرنا چاہیئے۔
خوش رہیں