پیر، 18 اگست، 2014

سول نافرمانی کی تحریک کا اصل قصور وار

کل عمران خان کی طرف سے ہونے والے ان کی زندگی کے سب اہم، سول نافرمانی کے اعلان کے بعد ملک کے سنجیدہ سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، صحافتی اور عوامی حلقں میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ آخر ایسا کونسا مشیر ہے جس نے عمران خان کی سیاسی زندگی کا تقریباً خاتمہ کر دیا ہے ـ میرے خیال میں اب وہ وقت آ گیا ہے کہ میں سب کے سامنے یہ اقرار کر لوں کہ اس سب کے پیچھے میرا قصور ہے ـ میں آپ کو اصل کہانی سنا ہی دیتا ہوں اور یہ ایک سبق آموز قصہ ہے کہ کبھی بھی نادان دوست کو بھی اچھا مشورہ نہ دو ـ
میرا ایک بہت اچھا دوست تحریکِ انصاف میں ہے ـ نوجوان بھی ہے اور پرجوش بھی، اس کی سب سے بہترین خوبی جو مجھے پسند ہے وہ یہ ہے کہ پڑھنے لکھنے سے شغف رکھتا ہے ـ ایک دن دورانِ گفتگو اس نے مجھ سے کہا کہ اسے کوئی ایسی کتاب بتاؤں جو اس کی سیاسی زندگی کے لیے فائدہ مند ثابت ہو ـ اسے میں نے گاندھی کی آپ بیتی "سچ کی تلاش" پڑھنے کا مشورہ دیا لیکن یہ بتانا بھول گیا کہ اس کتاب کو پڑھ کر گاندھی کی منافقت کو سمجھے اور اپنی سیاسی زندگی میں ایسے منافقوں سے بچ کر رہے اور خود بھی ایسی منافقت نہ کرے ـ کتاب پڑھ کر اسے کچھ تھوڑی سمجھ آئی، کچھ نہ آئی ـ خیر، بات آئی گئی ہو گئی ـ
میرا وہ دوست، اکثر عمران خان سے ملتا رہتا ہے، تحریکِ انصاف کا ایک پرجوش، متحرک اور مخلص کارکن ہونے کی وجہ سے عمران اسے کافی پسند بھی کرتا ہے ـ ایک دن دورانِ گفتگو اس نے خان سے گاندھی کی سول نافرمانی تحریک کا ذکر کر دیا اور بتایا کہ کیسے اس تحریک سے گاندھی نے انگریزوں کو زچ کیا، لیکن شاید اس نے اس تحریک کے دوران پیش آنے والے خونریز واقعات اور اس تحریک کا انجام نہیں پڑھا تھا یا وہ 
خان کو بتانا بھول گیا کہ اس تحریک کا نتیجہ کیا نکلا ـ خان کو یہ آئیڈیا بڑا پسند آیا اور بولا کہ دیکھو، میری بات سنو میں نے اپنی تحریکِ انصاف کے لیے اوبامہ کے تبدیلی کے نعرے سے لے کر ہٹلر کی طرح کے اندھے مقلد بنانے کی طرح ہر لیڈر کی نقل کی ہے اب وقت آنے پر اس سول نافرمانی کی تحریک کا چربہ بھی ہم لاگو کریں گے ـ 
اس دوست نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو خان نے اسے ٹوک دیا اور کہا کہ دیکھو، میری بات سنو، آپ کو کچھ نہیں پتہ، میرے پاس پورا پلان ہے ـ ایک ایک منٹ کا پلان ہے ـ تم دیکھنا اس چربے کو لاگو کرنے سے تاریخ میں، میرا نام بھی عظیم لیڈروں کے ساتھ آئے گا ـ اس دوست نے پھر کچھ کہنے کی کوشش کی مگر خان نے پھر ٹوک دیا اور کوکین سونگھنے کے لیے ہاتھ اوپر کیے، منہ آگے بڑھا کر ایک گہرا سانس لیا، اس کے ساتھ ہی خان کہ منہ سے مغلظات کے موتی برسنے لگے ـ پرویز خٹک نے پاؤنڈز میں قیمت لینے کے باوجود مرچوں ملی کوکین خان کو دی تھی، سچ کہتے ہیں کہ پارٹی وفاداری اپنی جگہ، کاروبار اپنی جگہ ـ خان جی نے کوکین پرے پھینکی اور ملا فضل اللہ کی طرف سے آئی خالص چرس کا سگریٹ بنانے لگے اور میرے دوست سے کہا، مجھے سب پتہ ہے بس مجھے گاندھی کا پورا نام بتا دو ـ دوست نے بڑی مشکل سے جان بخشی کروائی اور وہاں سے بھاگا ـ
کل صبح جب خان صاحب اپنے کارکنوں کو ایک بار پھر ُتھک لگا کر بنی گالہ جانے لگے تو ان کو اس دوست کی شکل نظر آئی اور اس کے ساتھ ہی سول نافرمانی کا خیال بھی آ گیا ـ خان نے دوست کو ساتھ گاڑی میں بٹھایا، ایک طرف خود بیٹھ گئے اور دوسری طرف گنڈا پور کو بٹھا دیا ـ دوست نے لاکھ کہا کہ خان صاحب، میں ایسا لڑکا نہیں مگر خان صاحب نے اسے پیار سے سمجھایا کہ صرف مشورہ کرنا ہے اور اس کو ساتھ لے کر بنی گالہ پہنچ گئے ـ
وہاں پہنچ کر خان نے کور کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا اور سول نافرمانی کے بارے میں سب سے پہلے خان نے شیریں مزاری سے پوچھا ـ شیریں مزاری نے فوراً اپنے بالوں کو مزید جامنی رنگ لگایا ہونٹوں پہ سبز لپ سٹک للگائی، اس سے پہلے کہ شیریں کچھ بولتی وہان ِبل بتوڑی ناساں چوڑی اور کرنانی چڑیل حاضر ہو گئیں ـ انہوں نے شیریں کے سامنے ہاتھ جوڑے کہ بہن ایسا نہ کیا کر، ہمارے بچے ڈر جاتے ہیں اور غائب ہو گئیں ـ اس کے بعد شیریں نے خان کو بتایا کہ مجھے بھی یہ خیال بہت بہت پسند آیا ہے ـ
خان نے جو اس دوران اپنا چرس والا سگریٹ بنانے میں مشغول تھے، شاہ محمود قریشی سے پوچھا، اس کو تو بہت ہی پسند آیا ـ شاہ صاحب نے اپنے مخصوص ملائم لہجے میں خان کو مخاطب کیا، "خان صاحب" اور تھوک کا ایک انبار نکل کے خان کے منہ پر گرا، ایک عظیم راہنما کی طرح خان نے اس چیز کا بالکل بھی برا نہیں مانا بلکہ بڑے تحمل کے ساتھ منہ سے تھوک صاف کیا اور اسی سے اپنا چرس والا سگریٹ گیلا کر کے سلگایا اور کش لگا کرشاہ کو بات جاری رکھنے کا اشارہ کیا ـ شاہ نے شرمندگی محسوس کرتے ہوئے منہ نیچے کیا اور کہا، خان صاحب، شاہ محمود قریشی کے ہوتے ہوئے آپ کو کسی فکر کی ضرورت نہیں، میں یہ تحریک ایسے چلاؤں گا جیسے برطانوی دور میں میرے بزرگوں نے ہندوستانیوں کے خلاف چلائی تھی ـ 
اب خان نے اپنی پارٹی کے دماغ اسد عمر سے بات کی ـ وہ ہوتا ہے نہ کہ تھوڑی دیر بعد کوئی خامی نظر آ ہی جاتی ہے، اس کو تو رتی برابر خامی نظر نہ آئی ـ لیکن پھر بھی اسد عمر نے اینگرو والے اپنے دوستوں سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا، وہاں کال کی تو انہوں نے سیدھا کہا کہ بھائی جو حرکتیں یہاں کر کے اینگرو سے لات کھا کر نکلے ہو، وہاں نہ کرنا ورنہ خان جو مارے گا وہ لات نہیں ہو گی ـ
خان نے سوچا کہ چونکہ مرد مار اور مردوں سے مشورہ کر لیا ہے کیوں نہ کسی خاتون سے بھی مشورہ کر لیا جائے ـ فوزیہ قصوری سے بات کی تو اس نے صاف کہا کیونکہ شیریں مزاری کو پسند آیا ہے تو میری طرف سے نہ ہی سمجھیں ـ اب ناز بلوچ کو بھی شامل کیا اس نے بڑے ناز سے کہا کہ خان صاحب مجھے تو بہت ہی زیادہ پسند آیا ہے ـ
اب خان صاحب چونکہ بزعمِ خود ایک عظیم راہنما اور انسانیت کے ملجا و ماوٰی ہیں تو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ غیر جانبدار لوگوں سے بھی رائے لے لی جائے ـ بس جی پھر کیا تھا، شیخ رشید اور مبشرلقمان سے مشورہ کیا، وہ تو اچھل پڑے کہ کیا کہہ رہے ہیں خان صاحب، اتنا زبردست خیال ـ مبشر لقمان تو کہنے لگا کہ مجھے میرے ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ گاندھی کا نہیں آپ کا اپنا ذاتی خیال ہے ـ اور گاندھی کو اس کے پنڈتوں، ِرشی منیوں اور جوتشیوں نے بتایا تھا کہ مستقبل میں ایک راہنما جس کا نام عمران خان ہو گا یہ تحریک چلائے گا اور اس نے آپ کی نقل کر کے بیسویں صدی میں یہ تحریک چلائی ـ شیخ رشید صاحب چونکہ ایک سیانے آدمی ہیں بلکہ سیانے کاں ہیں انہوں نے تعریف کرنے سے پہلے فوراً کال ملائی، ایک بیٹ مین سے اجازت طلب کی اور خان کو کہا کہ خان صاحب یہ خیال یا آپ کو آ سکتا ہے یا کسی جرنیل کو، کسی انسان کو ایسا خیال نہیں آ سکتا ـ اب یہ سب سن کر خان صاحب خود کو اتنا اونچا سمجھنے لگے جتنا کیلے کے درخت پہ چڑھ کر کیلے کھاتا ہوا باندر خود کو سمجھتا ہے یا خالص َگردے کے پانچ جوڑے پی کر چرسی خود کو سمجھتا ہے ـلو جی، خان نے فیصلہ کیا کہ اب اور تو کچھ ہوتا نہیں سول نافرمانی کا ہی اعلان کر دو ـشام کو جلسے میں آئے اور سول نافرمانی کا اعلان کر دیا ـ
تقریر کرنے کے بعد خان نے جاویدہاشمی سے پوچھا کہ ہاں بھئی باغی، کیسا دیا؟ ہاشمی صاحب ایک لحضے کو کو رکے، کچھ سوچا، ٹھنڈی سانس لی اور انہوں نے کہا خان صاحب، آپکے منہ پر تعریف نہیں، لیکن انتہائی ُاور شدید ُدر فٹے منہ آپکا ـ
رات گئے دوست کا فون آیا اور اس نے بڑے فخر سے کہا کہ یہ آئیڈیا خان کو میں نے دیا تھا ـ میں نے کہا نہیں دوست، قصور میرا تھا جو میں نے تجھے گاندھی کی کتاب "سچ کی تلاش" پڑھنے کا مشورہ دیا ـ

6 تبصرے:

Sarwat AJ کہا...

سول نافرمانی کی تحریک کا تو پتہ نہیں کیا ہوگا ۔۔۔۔۔پر قوم کی دکھتی رگ ۔۔۔۔۔بے تحاشا بڑھتے ہوئے بِل ہی ہیں۔

Unknown کہا...

behtareen tanz shabaash jeete rehye aur yun hi sada likhte rehye

Abrar Qureshi کہا...

واہ واہ واہ۔ انی پادتی تسی پائین۔ گڈ طنزیہ تحریر۔
مزا آیا تحریر پڑھ کر اور شاہ صاحب بارے کیا آبزرویشن ہے آہکی۔ خان ساب کی کوکین و چرس والی خبر سچ ہے یا طنز؟؟

Unknown کہا...

واہ واہ واہ۔

Unknown کہا...

واہ واہ واہ۔

Unknown کہا...

بہت اعلیٰ !