اتوار، 14 دسمبر، 2014

انجام

وقت کی دہلیز پر قرنوں کا مسافر
دستک دینے سے گریزپا ہے یہ سوچ کر
سراسیمہ ہے، حیراں ہے
اور اس فکر میں سرگرداں ہے
وقت کی چوکھٹ کے در وا ہونے سے
اس کے نصیب میں کونسا لحظہ آئے گا
اس کی مسافت تمام ہو گی
یا پھر سے اذنِ سفر پائے گا
(وقت کی دہلیز سے آج تک
بھلا کوئی مطمئن لوٹا ہے؟
وقت کا گھر تو خود اک سفر ہے
وقت کی قید سے بھلا کس کو مفر ہے)
وقت کی کتاب میں ثبات تو موت ہے
سفر کا تسلسل ہی جیون کی جوت ہے
لحظوں کا، سالوں کا، صدیوں کا، ہزاریوں کا
سفر آخر تمام ہوتا ہے
وقت کی دہلیز پہ کھڑے ہر مسافر کا
ایک ہی انجام ہوتا ہے ـ

کوئی تبصرے نہیں: