پیر، 22 دسمبر، 2014

طفلِ آوارہ ہوں سفر میں نہیں رہتا

دل میں رہتا ہوں نظر میں نہیں رہتا
طفلِ آوارہ ہوں سفر میں نہیں رہتا
برقی خط نہیں، پھول بھیجو مجھے
حقیقت ہوں، محض میسنجر میں نہیں رہتا
سرشام بامِ فلک سے جھانکتا چاند
کتنا خودسر ہے گھر میں نہیں رہتا
کیسے پائے گا لطفِ وصل کی معراج
وہ بدنصیب جو ہجر میں نہیں رہتا
کیوں ملتا ہے پیار کوڑے دان میں
گجروں کے باسی زیور میں نہیں رہتا؟

1 تبصرہ:

Mudassir Iqbal کہا...

خوبصورت اور اعلی بیگ صاحب :)