پیر، 19 مئی، 2014

تپتی دھوپ میں چھاؤں جیسی ہے

تپتی دھوپ میں چھاؤں جیسی ہے
دوست تو ہے پر ماؤں جیسی ہے
یوں تو شہر کی  رہنے والی ہے
اپنی ہر چھب میں گاؤں جیسی ہے
جو ملیں ہمیشہ کسی مستحق کو
فقیر کی مانگی دعاؤں جیسی ہے
پردہ جو رکھیں ہمیشہ پاروتی کا
کورو کے دربار میں رداؤں جیسی ہے
کیا فرار ڈھونڈوں تجھ سے زیست
آ جا کہ تجھے ِبتاؤں جیسی ہے!!