بدھ، 22 جنوری، 2014

طالبان اور ریاستِ پاکستان

پچھلی دو دہائیوں میں ریاستِ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ کسی بیرونی ریاست یا دشمن سے نہیں بلکہ ایک ایسی دہشت گرد تنظیم سے ہے جس کی پرورش میں ریاست کا اپنا اہم کردار ہے ـ یہ تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے نام سے جانی جاتی ہے ـ
بظاہر طالبان کا مطالبہ، ملک میں شریعت کا نفاذ ہے لیکن دراصل یہ اس مخصوص مکتبہء فکر کی سوچ کو ملک پر لاگو کرنا چاہتے ہیں جس کے یہ پیروکار ہیں ـ اگر ان کو نفاذِ شریعت میں دلچسپی ہوتی تو یہ دوسرے فرقوں اور مذہبی اکائیوں کے خلاف ایسی دہشت گردانہ کاروائیاں ہر گز نہ کرتے جس سے ان کے نہتے مرد، عورت، بچے اور بوڑھے مارے جاتے کیونکہ اسلام کسی بھی حالت میں نہتے لوگوں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا ـ
ریاست کے خلاف اس جنگ یا بغاوت میں طالبان کا سب سے خطرناک ہتھیار وہ خودکش حملہ آور ہیں جو کسی بھی عوامی اجتماع یا جگہ یا کسی بھی عسکری تنصیب یا شضصیت/شخصیات جو کہ ان کا نشانہ ہو پر پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیتے ہیں ـ اس طریقہ کار کی مثال ماضی میں حسن بن صباح کے پیروکار ان قاتلوں سے دی جا سکتی ہے جو کہ تاریخ میں حشیشن کے نام سے جانے جاتے ہیں اور وہ ابنِ صباح کے احکامات بجا لانے کے لیے کسی بھی شضصیت کو قتل کر دیتے تھے خواہ ان کی اپنی جان چلی جائے ـ وہ یہ سب اس لیے کرتے تھے کہ ابنِ صباح نے انہیں  نہ صرف بہشت کی بشارت دی ہوتی تھی بلکہ مشن پر نکلنے سے پہلے قلعہ الموت میں بنائی گئی جنت کی سیر بھی کروائی جاتی تھی اور بتایا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد تم یہاں آؤ گے ـ اس خودساختہ جنت میں انہیں دنیا جہان کی نعمتیں پیش کی جاتیں تھیں جن میں مخصوص تربیت یافتہ دوشیزائیں بھی شامل ہوتی تھیں جو کہ ان پیروکاروں کے حواس کو یوں قابو کرتی تھیں کہ وہ جنت سے نکلنے کے بعد واپسی کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار ہوتے تھے ـ ان قاتلوں نے اس وقت کی ریاستوں کو شدید نقصان پہنچایا اور عباسی خلافت کے زوال میں بہت اہم کردار کیا ـ بعض ذرائع کے مطابق موجودہ طالبان بھی اپنے خودکش حملہ آوروں کے اذہان کو قابو کرنے کے لیے ابنِ صباح جیسے ہتھکنڈے ہی استعمال کرتے ہیں جن میں منشیات سے لیکر کر جنس تک شامل ہیں ـ
ان طالبان کے خلاف کاروائی کے لیے پاکستانی معاشرہ واضح طور پر تین گروہوں میں تقسیم ہے ـ ایک گروہ جو کہ غالب مگر خاموش اکثریت ہے طالبان کے خلاف مکمل عسکری قوت کو برؤے کار لاکر ان کے خاتمے کا حامی ہے ـ دوسرا گروہ جو کہ تعداد میں کم ہے وہ کچھ وجوہات کی بنا پر ان سے مذاکرات کرنے کا حامی ہے اور مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں عسکری حل کی بات کرتا ہے ـ تیسرا گروہ جو کہ واضح اقلیت میں ہے طالبانی سوچ و نکتہء نظر کا حامی ہے ـ یہ گروہ طالبان کو حق پر سمجھتا ہے اور ان کی مالی، اخلاقی اور کسی بھی ممکن ذرائع سے ان کی امداد کرتا ہے ـ
کچھ اسی قسم کی تقسیم حسن بھی صباح کے دور میں بھی تھی ـ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تماتر ریاستیں ان اندرونی اختلافات کے باعث اس گروہ کو ختم کرنے میں ناکام رہیں اور کمزور ہو کر رفتہ رفتہ صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں ـ اس گروہ کو ختم کرنے کے لیے پھر منگول حکمران ہلاکو خان کی آمد ہوئی اور اس نے بغداد کی عباسی خلافت کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ قلعہ الموت کو بھی زیر کر کے اس گروہ کا خاتمہ کیا ـ
موجودہ حالات میں ریاستِ پاکستان اور پاکستانی عوام کے سامنے بھی دو راستے ہیں ـ ایک تو یہ کہ تاریخ کو دہراتے ہوئے منقسم رہیں اور کسی ہلاکو خان کی آمد کا انتظار کریں جو اس گروہ کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں ویسی ہی خون کی ندیاں بہائے جیسی ہلاکو نے بغداد میں بہائی تھیں یا پھر یہ کہ قوم و ریاست متحد اور یکسو ہو کر اس گروہ کا خود خاتمہ کرے تاکہ کسی بھی ہلاکو کو نہ آنا پڑے ـ  

4 تبصرے:

گمنام کہا...

ویل اسٹیبلشڈ فیکٹ ہے کہ طالبان کی طلب اسلامی نفاذ نہیں ہے. کچھ حضرات تو پاکستانی اسٹینڈرڈ رنگ کے حساب سے بهی کئ گناہ صاف اور مشرقی روایات کے مطابق حنا کے ٹیٹو کی جگہ دوسرے ٹیٹو لیئے بهی جنت کا ٹکٹ کٹاتے پائے گئے ہیں.
جس دن وہ پهٹنے کا ارادہ کر لیتے ہیں دائرہ اسلام سے ویسے ہی باہر نکل جاتے ہیں.
چنگیز خان جہڑے پت ماواں جمدیاں نئ.
متحد ہونے سے زیادہ یم لوگ پهٹ کر مرنے کو ترجیح دیتے ہیں.
اب تو بس شاید کوئ معجزہ ہو گا یا کوئ بڑا زور دار جهٹکا اللہ کی طرف سے جو سدهار پیدا کرے اس قوم میں. بس اللہ اپنا رحم کرے پاکستان پر اور ناقدرے پاکستانیوں پر

افتخار اجمل بھوپال کہا...

محترمہ ۔ خود کش بمبار بننے کیلئے حس بن صباح والا نسخہ بھی استعمال ہوا ہو سکتا ہے ۔ یہ کام عاد مجرم بھی کر سکتے ہین کہ اُنہوں نے تو مرنا ہی ہے ان کے گھر والوں کو لاکھوں روپے مل جائیں گے ۔ ایک اور بھی قابلِ غور چیز ہے ۔ کم از کم تین دہائیاں قبل سے کچھ لاوارث چند ماہ عمر کے بچے غیرملکی عورتین عدالت کے ذریعہ گود لے کر ملک سے باہر لیجاتی رہیں ۔ گمان غالب ہے کہ یہ بچے ایک خاص ماحول میں پالے گئے جسے آپ حس بن صباح کا طریقہ کہہ سکتی ہیں ۔ چودہ پندرہ سال کا ہو جانے پر انہیں نفسیاتی طور پر اسلام کی خاطر خود کش بمبار بننے پر تیار کیا گیا ۔ اس کے ساتھ ایک اور بات بھی غور طلب ہے کہ ین سب خود کش بمباروں کے ساتھ کم از کم ایک آدمی ہوتا ہے جسے آپریٹر کہا جا سکتا ہے ۔ میری چھٹی حس یہ کہتی ہے کہ کئی واقعات میں اپنے ساتھ بندھے بم کو نوجوان خود نہیں چلاتا بلکہ آپریٹر چلاتا ہے
سب سے اہم اور غور طلب بات ہے کہ ان نام نہاد طالبان کو ٹیکنالوجہ ۔ میٹیریئل اور لوجسٹکس کون مہیاء کرتا ہے ؟ ظاہر ہے ایسا صرف جدید ٹیکنالوجہ کا علم اور وسائل رکھنے والے ہی کر سکتے ہیں ۔ شاید آپ کے علم میں ہو کہ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں امریکیوں کو بلا روک ٹوک پاکستان آنے جانے کی اجازت تھی جو زرداری کے دورِ حکومت میں اُس وقت تک جاری رہی جب لاہور میں ریمنڈ ڈیوس گرفتار ہوا ۔ ہوتا یوں تھا کہ کہ امریکی اسلام آباد ایئر پورٹ کے ایک خاص دروازے سے آتے جاتے تھے جہاں نہ ان کا پاسپورٹ چیک ہوتا تھا نہ ٹکٹ نہ سامان ۔ ریمنڈ ڈیوس کے پکڑے جانے پر یہ سارا معاملہ آئی ایس آئی کے علم میں آیا اور یہ سلسلہ فوج نے بند کروایا لیکن آج تک نہیں معلوم ہو سکا کہ امریکی سی آئی اے کے کتنے لوگ پاکستان میں موجود ہیں ۔ کتنے ان کے زر خرید ایجنٹ کام کر رہے ہیں اور وہ کیا کچھ پاکستان مین لائے اور کس کو دے کر گئے

گمنام کہا...

mera comment: aap column q nahi likhtay :)

جواد مقصود کہا...

@qhtm: I am planning to start writing aur aap ki naik tamanain aur duain shamil e haal rahein to Insha Allah likhnay ki himmat bandhi rahay gi