منگل، 26 مئی، 2015

پہاڑ

کبھی اِک دور ہوتا ہے
شہنشاہ کی دُھوم ہوتی ہے
شہنشاہ کا اقبال بلند ہے
شہنشاہ کا اقبال بلند رہے
چار سُو یہ شور ہوتا ہے
اور تخت و تاج کے بوجھ تلے
دبے بُوزنے مالکِ کُن کہلاتے ہیں
شہر جلتے رہیں، لوگ مرتے رہیں
یہ راگ و نغمہ کی تانیں اڑاتے ہیں
سپاہ و سپر و تِیر و تفنگ
ان کے اشارۂ ابرو پہ جامد
تو جبیں کی شکن پہ قہر بن کر
حیات و موت کے درمیاں کے
لطیف پردے چاک کرتے ہیں
مگر!
اِک وقت ایسا بھی مقرر ہے شعور کی بیداری کا
رعونت سے کھڑے
پہاڑ بن کے سینۂ آدمیت میں گڑے
روئی کی گالوں کی طرح بےآسرا
اڑتے اڑتے ببولوں پہ دم توڑ دیتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں: