اتوار، 17 مئی، 2015

پاک چین اقتصادی راہداری پر سیاست کیوں؟

پاک چین اقتصادی راہدری کو لے کر، جب سے چینی صدر کے دورے کے دوران اس کا اعلان ہوا ہے، مختلف قسم کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، جن سے عوام میں ابہام پھیل رہا ہے۔ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس تحریر میں ان الزامات کا جواب دینے کی کوشش کر رہا ہوں، شاید کہ کسی دل میں اتر جائے میری بات۔
سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ پاک چین اقتصادی راہداری ہے کیا چیز اور اس کی اہمیت کیا ہے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ گوادر کی بندرگاہ کی ایک اہم تزویراتی اہمیت ہے اور مکمل طور پر فعال ہونے کے ساتھ ہی یہ تیل کی تجارت کے ساتھ وسطِ ایشیا کے ممالک کو گرم پانی کی نزدیک ترین بندرگاہ ہو گی، جس سے دنیا میں تجارتی راستے بہت حد تک بدل جائیں گے۔
اب آپ ذرا ہمارے اس خطے کا نقشہ اٹھا کر دیکھیں، بھارت اور وسطِ ایشیا کی ریاستوں کے درمیان نزدیک ترین زمینی راستہ پاکستان کے ذریعے ہے اور دوسری طرف سے بھی یہی معاملہ ہے۔ چین کو بھی گوادر کی بندرگاہ بننے سے مشرقِ وسطٰی تک نزدیک ترین راستہ پاکستان ہی سے پڑتا ہے۔ یہاں پر افغانستان کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے، جس کے پاس بندرگاہ بالکل بھی نہیں، اور ابھی بھی اس کی سمندری تجارت پاکستان کی کراچی بندرگاہ سے ہوتی ہے۔
فی الوقت بھارت اور وسطِ ایشیا کی ریاستوں کے مابین تجارت ایران کے ذریعے ہوتی ہے۔ آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہوئی ہو گی کہ ایران تو کہیں سے بھی بھارت اور وسط ایشیائی ریاستوں کے درمیان نہیں آتا، تو پھر اس کے راستے تجارت کیسی؟ ہوتا یوں ہے کہ سامانِ تجارت اگر بھارت سے چلے تو پہلے بھارت کی بندرگاہ سے ایران کی بندرگاہ تک جاتا ہے اور وہاں سے پھر سڑک کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ فرض کریں کہ اگر ایران، بھارت اور وسط ایشیائی ریاستوں سے دس ڈالر فی ٹن راہداری کی مد میں، یعنی اپنا راستہ استعمال کرنے کی فیس لیتا ہے تو اس کو کتنی آمدن ہوتی ہو گی۔ اور اگر یہی تجارت پاکستان کے راستے ہو رہی ہو تو پاکستان کی آمدن میں کتنا اضافہ ہو گا۔
اب آتے ہیں دوسری طرف، اگر آپ تین دوست پشاور میں موجود ہیں اور آپ میں سے ایک کو سامان لیکر گوادر جانا ہے، دوسرے کو لاہور آنا ہے اور تیسرے کو سکھر جانا ہے تو کیا آپ تینوں ایک ہی راستہ استعمال کریں گے یا جو راستہ آپ کو نزدیک ترین پڑے گا، وہ استعمال کریں گے؟ کوئی مشکل سوال نہیں ہے، آپ لوگ بہت آسانی سے اس کا جواب دے سکتے ہیں، ظاہری بات ہے نزدیک ترین راستہ۔
یہی صورتحال پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بننے والی تین شاہراؤں کی ہے، جنہیں مغربی، وسطی اور مشرقی راستوں کا نام دیا گیا ہے، اور ہر شاہراہ چین سے شروع ہو کر گوادر پر ختم ہوتی ہے۔
ابہام یہ پھیلایا جا رہا ہے کہ یا تو یہ راہداری چھوٹے صوبوں سے گزرتی ہی نہیں اور اگر گزرتی بھی ہے تو پنجاب میں راستہ بننے سے دوسرے صوبوں کا حق مارا جائے گا۔ یہاں میں چند ایک سوالات آپ کے ذہنوں کے لیے کرنا چاہتا ہوں۔
۱۔ کیا چین سے جو بھی مال آئے گا، وہ صرف گوادر کے لیے ہو گا یا اس میں سے کچھ مال پاکستانی تاجروں کی درآمد بھی ہو گا، جو ملک کے مختلف شہروں میں کاروبار کرتے ہیں؟
۲۔ مختصر ترین راستہ ہونے کی وجہ سے اگر چین اور بھارت کی تجارت پاکستان کے راستے ہوتی ہے تو وہ پہلے گوادر مال بھیجیں گے یا زمینی راستے سے مال بھیجیں اور وصول کریں گے؟ یہ تجارت پاکستان اور بھارت کے سرحد جو پنجاب اور سندھ میں مسلسل ہے کہ زریعے ہو گی یا گوادر اور ممبئی کے سمندری راستے کے ذریعے؟
۳۔ اگر سندھ اور پنجاب کے پاکستانی تاجروں نے سامان گوادر بھیجنا ہے تو اس کے لیے کونسا راستہ استعمال کریں گے؟
ان سوالات کو پڑھنے کے بعد، آپ کو پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے تین مغربی، وسطی اور مشرقی راستوں کی سمجھ آ گئی ہو گی کہ ان شاہراہوں کا مقصد کسی کی حق تلفی نہیں اور نہ ہی مقابلے کی فضا پیدا کرنا ہے، بلکہ تاجروں، صنعتکاروں اور نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ اور اس سلسلے میں حکومتِ پاکستان کے اعلان کے مطابق سب سے پہلے مغربی راستہ بنے گا، جو چین اور گوادر کے درمیان سیدھا اور مختصر ترین راستہ ہے اور خیبرپختونخواہ ۔ بلوچستان سے گزرتا ہے۔
ایک اہم چیز کا ذکر کرتا چلوں کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت صرف یہ تین شاہراہیں شامل نہیں، بلکہ توانائی خصوصاً بجلی کی پیداوار کے اربوں ڈالر کے منصوبے بھی شامل ہیں اور ان میں سے زیادہ تر منصوبے سندھ اور خیبرپختونخواہ میں لگنے ہیں۔ ان منصوبوں کی تفصیل اگلے کسی بلاگ میں دی جائے گی۔
اس اقتصادی راہداری کے سلسلے میں حکومتِ پاکستان نے سرکاری سطح پر نقشے بھی شائع کیے ہیں، اشتہارات بھی دئیے ہیں اور ایک کل جماعتی کانفرنس میں تمام پارلیمانی قائدین کو تفصیلات سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سب کے باوجود کچھ لوگ ناسمجھی میں اور کچھ اپنے سیاسی مفادات کے لیے اس منصوبے، جو پاکستانی عوام کی تقدیر بدل سکتا ہے، کہ خلاف افواہیں پھیلا رہے ہیں۔
خدارا، ان ملک دشمنوں کے پراپیگنڈے کا شکار نہ بنیں بلکہ زمینی حقائق کی بنیاد پر خود تجزیہ کریں۔

3 تبصرے:

عادی کہا...

ماشاءاللہ اچھا لکھا ھے.
اللہ انکی منفی سوچ کو محبت میں بدل دے

Unknown کہا...

الله آپ کو خوش رکھے اور جو لوگ اس کوریڈور کو سیاست کی نظر کرنا چاہتے ہیں۔ اِنہیں بھی اس کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین

Unknown کہا...

سڑکیں جتنی بھی بنیں ان پر اعتراض نہیں اٹھا بلکہ دیگر پارٹیز انڈسٹریل پارکس ٹرین ٹریک اور مغربی روٹ کے روڈز کی گریڈنگ پر کلیریٹی چاھتی ھیں. ان سب کی کلئیر کٹ اناؤنسمنٹ کا کوئی نقصان تو نہیں. احسن اقبال ملک دشمن کہہ کر مزید رائیتہ پھیلا رھے ھیں اسحاق ڈار کا رویہ سمجھداری والا اور مناسب ھے. ان سب باتوں کو چھپانا بنتا نہیں ھے یا شاید گورنمنٹ نے ابھی خود بھی ڈیسائیڈ نہیں کیا