بدھ، 11 فروری، 2015

دشمنِ جاں زندگی

زیست، حیات، جان اور زندگی کے سب استعارے
اس دشمنِ جاں کے سامنے بےمعنی ہیں
وہ روح کی لطافت سا پاکیزہ بدن
ارضی تشبیہات سے ماورا ہے
شاید اسی کو تخیل میں لا کر قدیم تہذیبوں نے
عصمت و عفت کی دیویاں بنا بنا پوجیں
قرونِ وُسطٰی کے سیاہ گھور اندھیروں نے
اسی نور کی آہٹ پہ پر سمیٹے
شاید اسی نازک بدن کی راحت کو
آدم کو آسائش و آرائش کی باتیں سوجھیں
زیست، حیات، زندگی اور جان کے سب استعارے
اس دشمنِ جاں کے سامنے ہیچ ہیں
وہ دشمنِ جاں، جو وجہء زندگی ہے
جو جانِ جاناں ہے، جو زندگی ہے

5 تبصرے:

Unknown کہا...

بہت خوب -الله مزید نکھار اور آمد سے نوازے - آمین
( آخری درویش )

Unknown کہا...

ye wahi dushman-e-jaan hey jis k baghair zindagi mushkil hey aur jis k saath zindagi guzaarna naa-mumkin, behrhaal khoob likha hey. Khuda unko parhna naseeb krwaae ;)

Unknown کہا...

بہت اچھا ھے

JonElia کہا...

بہت عمدہ جواد صاحب......قائل ہوگیا ہوں آپکے لفظوں کے چناو اور خیالات کا ...🌷

Unknown کہا...

بہت عمدہ، بہترین!