اتوار، 6 نومبر، 2016

محب

بہت سادہ، بہت عمیق جیسے چھوٹی بحر میں غالب  کی لائن
‏فارہہ، صوفیہ، نہ شہناز
زیدی، ثروؔت، جوؔن کی سوچ سے بڑھ کر پرخیال
مستعار لے جس سے گلزاؔر اپنے تمام استعارے
ساؔغر کی تلخی کے زہر سے، ساؔحر کی لفاظی  کے سِحر سے پرے
بدر کی نمکینی، محسن کی شیرینی سے تھوڑا ہٹ کے
بابر کے عشرے کی طرح ترو تازہ
‏اکھیوں مں صبح صادق سی چمک، گالوں پہ شفق شام سی
دید میں حسنِ تام ہے وہ نہ شنید میں عام سی

کوئی تبصرے نہیں: