اگر میں لاپتہ ہو جاؤں
تو میرے لیے مت تکلیف اٹھانا
نہ کوئی کمپین چلانا، نہ کوئی ٹرینڈ بنانا
نہ کوئی احتجاج کرنا، نہ موم بتیاں جلانا
بس چند دعائیہ فقرے ادا کر کے
کسی بھی جگہ پر کچھ پھول بکھیر دینا
اور اگر میں نہ لوٹوں تو
تو بس یہ یاد رکھنا
تمہارے جمہوری مستقبل کے لیے
میں نے اپنا آج قربان کر دیا ہے
منگل، 30 مئی، 2017
آخری خواہش
اتوار، 6 نومبر، 2016
محب
بہت سادہ، بہت عمیق جیسے چھوٹی بحر میں غالب کی لائن
فارہہ، صوفیہ، نہ شہناز
زیدی، ثروؔت، جوؔن کی سوچ سے بڑھ کر پرخیال
مستعار لے جس سے گلزاؔر اپنے تمام استعارے
ساؔغر کی تلخی کے زہر سے، ساؔحر کی لفاظی کے سِحر سے پرے
بدر کی نمکینی، محسن کی شیرینی سے تھوڑا ہٹ کے
بابر کے عشرے کی طرح ترو تازہ
اکھیوں مں صبح صادق سی چمک، گالوں پہ شفق شام سی
دید میں حسنِ تام ہے وہ نہ شنید میں عام سی
اتوار، 29 مارچ، 2015
دو دھماکے
مجھے ڈر ہے
کہ پہلے دھماکے سے لیکر اب تک
ازلی آقا جو عرش و اولمپس و ہمالہ
پہ براجمان ہمارے خدا بنے بیٹھے ہیں
وقت کی ابتداء سے ہی جنہوں نے
غریبوں ناداروں مفلسوں کے پسینے سے
کمائے سِکّوں کی قربانی طلب کی
اور اس قربانی کے عوض فقط
ایک آس ایک امید ایک دلاسا دیا
اور اگر کبھی زردار سے خراج بھی لیا
تو وہ خراج بھی
مفلسی کے خون سے ادا کیا گیا
مجھے ڈر ہے
ان ازلی آقاؤں کی نسلیں بھی
کسی آخری دھماکے میں معدوم نہ ہو جائیں
پیر، 9 مارچ، 2015
انعام
میرے نارسا، میرے پارسا
تیری جدائی سے میری قربتیں
میرے عشق کو شاد کر گئیں
تیرے وصل سے میری فرقتیں
چاہتوں کو برباد کر گئیں
میری دشت دشت کی ریاضتیں
میری روز و شب کی عبادتیں
بس اک نگاہ میں لُٹ گئیں
تیرے در سے سب نسبتیں
اک شکن سے چُھٹ گئیں
مجھے ہجر تو نصیب نہ تھا
مگر اس راہ گزر کے سفر پر
سب صعوبتیں اور کلفتیں
راحتوں میں ڈھل گئیں
تیری اک نظر سے کھل اٹھے
عارض و رخسار مرجھائے ہوئے
سب چہرے کملائے ہوئے
اک مسکان سے جل اٹھے
سب چراغِ جاں بُجھے ہوئے
اتوار، 1 مارچ، 2015
التجا
میرا علم و فن، کلام و لحن
تیری بارگاہ میں سب رہن
میرے علم و کلام کے بدلے
مجھے اپنے تکلم سے نواز دے
یدِ بیضا کا نہیں مدعی میں
مجھے نارِ عشق میں ڈال دے
میرا فن نہیں قُم باذن اللّٰه
اسے چھین لے مجھ سے
مجھے ایک نظر دیکھ لے
میری روح کو زندگی کا ساز دے
جس سے وہ نغمہ ہو بکھر رہا
آہن کو موم کر دے، جو حُدی کو ناز دے
مجھے اپنے بازوؤں میں بھینچ لے
میرے جنوں کو قرار دے
میرا علم و فن، کلام و لحن سب چھین لے
مجھے کوئی شام ادھار دے
جمعہ، 20 فروری، 2015
خواہش
حُسنِ ناتراشیدہ!
میری معمولی سی خواہش پوری کر دے
تُو میرے ساتھ اجنتا و ایلورا کی سیر کو چل
میں فقط اِک بار یہ دیکھنا چاہتا ہوں
وہ گوتم، وہ جاتک، وہ دیویوں کے مجسمے
جو فن کی معراج ہیں
جن کا ایک ایک عضو ہنرِ تراشیدگی کا اوجِ کمال ہے
جن کی سطوت کا احاطہ آج بھی ممکن نہیں
تیرے فطری حٌسنِ ناتراشیدہ کو دیکھتے ہی
تیرے حُسن کا کلمہ پڑھتے ہوئے
سجدوں میں گِر جاتے ہیں۔
بدھ، 11 فروری، 2015
دشمنِ جاں زندگی
زیست، حیات، جان اور زندگی کے سب استعارے
اس دشمنِ جاں کے سامنے بےمعنی ہیں
وہ روح کی لطافت سا پاکیزہ بدن
ارضی تشبیہات سے ماورا ہے
شاید اسی کو تخیل میں لا کر قدیم تہذیبوں نے
عصمت و عفت کی دیویاں بنا بنا پوجیں
قرونِ وُسطٰی کے سیاہ گھور اندھیروں نے
اسی نور کی آہٹ پہ پر سمیٹے
شاید اسی نازک بدن کی راحت کو
آدم کو آسائش و آرائش کی باتیں سوجھیں
زیست، حیات، زندگی اور جان کے سب استعارے
اس دشمنِ جاں کے سامنے ہیچ ہیں
وہ دشمنِ جاں، جو وجہء زندگی ہے
جو جانِ جاناں ہے، جو زندگی ہے
بدھ، 24 دسمبر، 2014
خاک زادے کا عشق
خیال سی بے مثال لڑکی
آپ ہی وہ اپنی مثال لڑکی
ان دیکھا سا انجانا سا احساس اس کا
پاکیزگی کا پیراہن لباس اس کا
گنگا بھی اس کی سوگند کھائے
پاروتی اس کے آنچل سے بدن چھپائے
سوہنی کا حسن ماند اس کے سامنے
شیریں کا کوہکن غلام اس کے سامنے
ہمالہ کماری، وہ اولمپس کی شہزادی
برہما کی بیٹی، وہ زیوس زادی
حسن کا استعارہ، وہ کشمیر کی وادی
تمکنت اس کی بیاں کیسے ہو
اوڈیسیس، اتھینا کا نگہباں کیسے ہو
عشق، حسن کا مہماں کیسے ہو
میں ارضی، میں فانی، میں خاک زادہ
کیسے کروں اس سے چاہت کا ارادہ
پیر، 19 مئی، 2014
تپتی دھوپ میں چھاؤں جیسی ہے
دوست تو ہے پر ماؤں جیسی ہے
یوں تو شہر کی رہنے والی ہے
اپنی ہر چھب میں گاؤں جیسی ہے
جو ملیں ہمیشہ کسی مستحق کو
فقیر کی مانگی دعاؤں جیسی ہے
پردہ جو رکھیں ہمیشہ پاروتی کا
کورو کے دربار میں رداؤں جیسی ہے
کیا فرار ڈھونڈوں تجھ سے زیست
آ جا کہ تجھے ِبتاؤں جیسی ہے!!
جمعرات، 15 مئی، 2014
دیواروں کا جنگل اگتا ہی چلا گیا
عجب یہ اپنا سلسلۂ پہچان ہو گیا
دیواروں کا جنگل اگتا ہی چلا گیا
درختوں کا شہر سارا ویران ہو گیا
اس قدر وفائیں لٹیں سرِ عام کہ
شہر کوفہ کا بھی پشیمان ہو گیا
ناقدری سے یوں نبھائی وفا کہ
وہ بے مہر بھی آخر مہربان ہو گیا
سوچ ہی کا استعارہ ہیں مژگانِ نم
ُتو تو مرے لفظوں کی پہچان ہو گیا
جمعہ، 10 جنوری، 2014
مجھے اپنا مذاق اڑانا چاہیے
مجھے اپنا مذاق اڑانا چاہیے
بہت میں آگئی ہے مجھ میں
کچھ عرصہ تو ساون بھادوں چلے
کوئی بدلی چھا گئی ہے مجھ میں
بہت چلاتا ہوں میں شب و روز
بہت خامشی چھا گئی ہے مجھ میں
اس الم کو چنے گا کرہء فال؟
بے یقینی سی آ گئی ہے مجھ میں
تعلق توڑوں تو توڑ دیتا ہوں
کیسی انتہا آ گئی ہے مجھ میں
محکم ہوں اپنی فنا کے امر پر
یہ کیسی بقا آگئی ہے مجھ میں
بدھ، 6 نومبر، 2013
خواب
دھنک رنگ سی شام تھی
آسمان کی ساری مے
بس تیرے ہی نام تھی
تیری راہ کا جو راہرو بنا
ہر شجر ُاداس و تنہا میرا ہمسفر بنا
چلا جو تیرے سنگ میں
ہر ستارہ اپنی گردِ راہ بنا
ُدور زمیں پہ جو چراغ تھے
میری آرزو کے وہ' دلفریب باغ تھے
اس قدر حسین وہ
زندگی کی رات تھی
میں تیرے سنگ نہ تھا' ُتو میرے ساتھ تھی
آخرِ شب کے چاند نے
مسکرا کے یوں کہا
ہے ُدعا یہ دل کی
ساتھ ساتھ رہو سدا
اتوار، 27 اکتوبر، 2013
آج بہت دنوں کے بعد!!
آج بہت دنوں کے بعد کچھ لکھنے کو جی چاہا
جی چاہا لکھوں تیرے حسن کے قصیدے
تیرے نین کنول، ہونٹ گلاب لکھوں
ہنسی کو جھرنا، تجھے خواب لکھوں
تیری سانسوں کی مہک، چوڑیوں کی کھنک لکھوں
سوچتا ہوں چاند کو تیری جھلک لکھوں
آنچل دھنک تو رفتار صبا لکھوں
زلفیں گھٹا، چاندنی کو قبا لکھوں
حور لکھوں، پری لکھوں، الپسرا لکھوں
تجھے سب سے جدا لکھوں، تیری ہر اک ادا لکھوں
منفرد لکھوں کہ یکتا لکھوں
حیراں ہوں کہ تجھے کیا لکھوں
لکھوں تجھے مرمر کی مُورت
لفظوں سے بناؤں تیری صورت
قرطاس پہ انمٹ تحریر لکھوں
تجھے حُسن کی تفسیر لکھوں
ہر خواب کی تعبیر لکھوں
تجھے اپنی تقدیر لکھوں
تیرے حسن کا فسوں لکھوں
اپنے عشق کا جنوں لکھوں
اپنی بے تابی کا قصہ لکھوں
سوچتا ہوں تجھے اپنا حصہ لکھوں
کبھی سوچتا ہوں تیری گفتگو لکھوں
تیرے سامنے تیرے ُروبرو لکھوں
تیری ذات کا ِسحر لکھوں
ہر شبِ غم کی َسحر لکھوں
قدرت کا شاہکار لکھوں
نزاکت کا آئینہ دار لکھوں
فصلِ ُگل کا کوئی بہروپ لکھوں
یا دسمبر کی ُدھوپ لکھوں
نکہتوں کا استعارہ لکھوں
یا فلک کا ستارہ لکھوں
بحرِ ہستی کا تجھے اک کنارہ لکھوں
دل نشیں یا دل کا مکیں لکھوں
اپنا گماں، اپنا یقیں لکھوں
درد کا درماں، دل کا ارماں لکھوں
اپنی زمیں یا پرایا آسماں لکھوں
تجھے لکھوں جہاں لکھوں
سو دل میں تجھے نہاں لکھوں
آج بہت دنوں کے بعد کچھ لکھنے کو جی چاہا
بتا!
تجھے کیا لکھوں؟