تپتی دھوپ میں چھاؤں جیسی ہے
دوست تو ہے پر ماؤں جیسی ہے
یوں تو شہر کی رہنے والی ہے
اپنی ہر چھب میں گاؤں جیسی ہے
جو ملیں ہمیشہ کسی مستحق کو
فقیر کی مانگی دعاؤں جیسی ہے
پردہ جو رکھیں ہمیشہ پاروتی کا
کورو کے دربار میں رداؤں جیسی ہے
کیا فرار ڈھونڈوں تجھ سے زیست
آ جا کہ تجھے ِبتاؤں جیسی ہے!!
دوست تو ہے پر ماؤں جیسی ہے
یوں تو شہر کی رہنے والی ہے
اپنی ہر چھب میں گاؤں جیسی ہے
جو ملیں ہمیشہ کسی مستحق کو
فقیر کی مانگی دعاؤں جیسی ہے
پردہ جو رکھیں ہمیشہ پاروتی کا
کورو کے دربار میں رداؤں جیسی ہے
کیا فرار ڈھونڈوں تجھ سے زیست
آ جا کہ تجھے ِبتاؤں جیسی ہے!!
1 تبصرہ:
oh wow!! wahh
ایک تبصرہ شائع کریں