جمعہ، 22 مئی، 2015

قائدِ ثانی

آج مجھے جس موضوع پر قلم اٹھانے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے، اس پر کوئی تحریر رقم کرنا اعزاز سے کم کی بات نہیں۔ کوئی کوئی خوش نصیب ہوتا ہے جسے یہ سعادت مل جائے۔ آج قسمت نے میرا انتخاب جناب حضرت "قائدِ ثانی" کی مدح سرائی کے لیے کیا ہے تو کوشش ہو گی کہ قسمت کے اس لکھے سے انصاف کر سکوں۔ اگر اس تحریر میں کوئی خوبی ہو گی تو وہ یقیناً قائدِ ثانی کی اصل خوبی سے کم ہو گی اور اگر آپ کو کہیں کوئی کمی یا کوتاہی نظر آئے تو یقین جان لیجیے گا کہ وہ اس کوتاہ بین و کم نظر خاکسار کی نادانستہ غلطی ہے، اور ویسے آپ بھی اس امر سے متفق ہوں گے کہ قائدِ ثانی کی ذات کو احاطۂ تحریر میں لانا عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ اب چلتے ہیں باقاعدہ مضمون کی طرف۔

پیدائش:
جیسا کہ اکثر عظیم شخصیات کے ساتھ یہ سانحہ ہوتا ہے، آپ کی تاریخِ پیدائش میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن آپ کی عظمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ماہرینِ جدید شدید تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آپ کی تاریخ پیدائش نہیں ہے بلکہ آپ کا دورانیہ پیدائش پانچ اکتوبر انیس سو باون سے لے کر پچیس نومبر انیس سو باون تک ہے، "بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا"۔

تربیت:
تمام بچوں کی طرح آپ کی والدہ ماجدہ نے بھی آپ کی تربیت کرنے کی کوشش کی مگر، آپ کو بچپن سے ہی اپنی عظمت کا ادراک تھا، اس لیے آپ نے اُن سے تربیت لینے خاص دلچسپی نہ لی۔
البتٰہ آپ کی شخصیت پر آپ کے والد محترم اور چند دوسرے اقرباء کے گہرے اثرات پڑے۔ عظیم شخصیات کی اکثریت کی طرح، آپ کے والدِ ماجد بھی ایک درمیانے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ ایک سرکاری محکمہ میں گریڈ سولہ کے ملازم تھے۔ ایماندار بیحد تھے، اس لیے ہمیشہ اس بات پہ یقین تھا جیسے کسی زمانے بنی اسرائیل کے لیے آسمان سے من و سلوٰی اتارا گیا، آپ کے لیے بھی اوپر سے کچھ اترے گا۔ اس لیے اوپر کی آمدن کو ہمیشہ من و سلوٰی کا متبادل سمجھ کر قبول کیا۔ بنی اسرائیل کے ساتھ، آپ کے والدِ گرامی کی محبت نے آگے چل کر آپ کی زندگی میں اہم کردار بھی ادا کیا۔

تعلیم:
ابتدائی تعلیم، آپ نے شہر کی مصروف ترین سڑک پر موجود ایک سکول میں حاصل کی۔ یہ سکول امراء کے بچوں کے لیے مخصوص تھا مگر آپ کی ذہانت، فطانت اور لیاقت کو دیکھتے ہوئے، آپ کو خصوصی کوٹے پر داخلہ دیا گیا۔ آپ کو بھی حصولِ علم کا اتنا شوق تھا کہ اس لگن میں آپ ایک سڑک پار کرنے کا طویل فاصلہ طے کر کے سکول جایا کرتے۔
تعلیم میں اتنی دلچسپی کے باوجود آپ ایک اوسط طالبعلم ہی واقع ہوئے۔ آپ کی یاداشت بہت تیز تھی، سکول میں ایک بار، ایک ہم جماعت نے آپ کو غلطی سے ہاکی مار دی تھی۔ آپ تمام عمر اس چیز کا بدلہ لینے کے لیے کوشاں رہے۔ اس کے علاوہ آپ میں آگے بڑھنے کا جذبہ بھی نمایاں تھا۔ جو آپ سے آگے بڑھ جاتا، اس کو پیچھے کھینچنے کے لیے آپ ہر قسم کے حربے جائز سمجھتے۔ اپنی سکول کی کرکٹ ٹیم کے کپتان کیخلاف بھی ساری عمر اس بات پر غصہ رہے کہ وہ آپ کو بارہواں کھلاڑی رکھتا تھا۔ معروف شاعر افتخار عارف نے اپنی مقبول نظم "بارہواں کھلاڑی" آپ کے اسی دکھ پر لکھی۔
بارہویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ پر اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کا جنون پیدا ہوا اور اس مقصد کے لیے آپ نے انگلستان کا رخ کیا، اور کھیلوں کی بنیاد پر ایک معروف جامعہ میں داخلہ لے لیا۔

پیشہ وارانہ زندگی:
آپ کی کامیاب پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز نوعمری میں ہی ہو گیا تھا۔ آپ کی کامیابی کا گُر یہ تھا کہ جس چیز کی وجہ سے آپ دوسروں پر تنقید کرتے تھے، موقع ملتے ہی بڑی معصومیت اور صفائی کے ساتھ وہی کام کر گزرتے تھے۔  آپ بچپن سے ہی اپنے ہم جماعتوں کے ٹفن بھی صفائی سے صاف کر جاتے تھے۔
ملک کے ایک دلیر جرنیل، جنہوں نے ملک کو غدار مچھیروں سے نجات دلا کر، ان کے لیے ایک الگ سڑا ہوا ملک بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، کی سفارش پر آپ کو کرکٹ کی قومی ٹیم میں جگہ مل گئی۔ اس میں دوسرا اہم کردار آپ کے کزن کا تھا، بعد میں آپ نے موقع ملتے ہی اس کزن کی پشت میں چھرا گھونپ کر انہیں ٹیم سے نکال باہر کیا۔
آپ نے کرکٹ کے کھیل میں ناخن، بلیڈ اور بوتل کے ڈھکنے جیسی اہم اور جدید چیزیں متعارف کروائیں، جنہیں حاسدین آج تک آپ کی بےایمانی سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن آپ نے کبھی بھی اپنے ایامِ کھیل میں اس بات کو تسلیم نہ کیا، بلکہ اس کو سفید جھوٹ کہتے رہے، مگر ریٹائرمنٹ لے بعد تسلیم کر لیا کہ یہ سائینس آپ نے ہی متعارف کروائی تھی۔
جھوٹ بولنے کی اس عادت کو آپ نے بعد میں اپنی سیاسی زندگی میں بھی خوب استعمال کیا مگر یہاں زیادہ تر جھوٹ پکڑے جانے کی بناء پر زیادہ تر بری طرح ذلیل ہوئے۔
کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ، آپ اپنی فطری وجاہت اور مشرقی خوبصورتی کی بدولت ایک پیشہ ور خاتون مار المعروف لیڈی کلر بھی تھے۔ جب بھی کوئی لڑکی دیکھوں میرا دل دیوانہ بولے اولے اولے اولے، آپ ہی کی رومانوی زندگی پر لکھا گیا نغمہ ہے۔ اس کے علاوہ، "آ جا گناہ کر لے"، ۔"چوری چوری چھورا چھوری چھت پہ ملیں گے تو کھیلیں گے پریم گیم"، "چھورا چھوری پارٹی میں، ڈُپ چِھک ڈُپ چِھک ہو ری سَین" اور ان جیسے کئی معروف رومانوی نغمے آپ کے رومانوی پیشے کا احاطہ کرتے ہیں۔ آپ کا نظریۂ رومان رنگ، نسل مذہب سے بالاتر تھا، اس لیے کبھی آپ نے سیتا کو اپنے رومان کی زینت بنایا تو کبھی وائیٹ کو امان بخشی۔
البتٰہ بعد میں آپ اپنی زندگی کے اس گوشے سے بالکل منکر ہو گئے اور خود کو ولی، غوث، قطب، ابدال کے درجے پر فائز سمجھنا شروع ہو گئے۔ مخالفین آپ پر یہ الزام بھی عائد کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہوتا تو سیاسی کامیابی کے لیے آپ نبوت کا دعوٰی کرنےسے بھی گریز نہ کرتے۔
ایک اور الزام جو آپ کی رومانوی زندگی کے حوالے سے آپ پر عائد کیا جاتا ہے، وہ عدالتی فیصلہ آنے کے باوجود آپ نے کبھی نہیں مانا، کیونکہ آپ کا ماننا ہے کہ بات وہی سچ ہے جو ہمارے حق میں ہے، باقی سب جھوٹ ہے۔ اسی چیز کی تبلیغ آپ نے اپنے مقتدین اور مقلدین کو بھی کی، جس کی وجہ سے معاشرے میں رواداری اور برداشت جیسی برائیاں کافی حد تک کم ہو گئیں۔

سیاسی زندگی:
آپ نے ایک بھرپور اور ہنگامہ خیز سیاسی زندگی گزاری۔ مروجہ طریقوں سے کامیابی حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد آپ نے عظیم جمہوری راہنماؤں جیسے ہٹلر، سٹالن، مسولینی وغیرہ کے طریقے پر عمل شروع کیا اور مخالفین کے خلاف بھرپور طریقے سے ایسی زہریلی پراپیگنڈہ مہم چلائی کہ جوزف گوئبلز بھی اگر زندہ ہوتا تو آپ کی شاگردی اختیار کر لیتا۔ ان تمام جمہوری اقدام کے بعد آپ نے عام انتخابات میں حصہ لیا، جہاں ایک عظیم شکست آپ کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے باوجود نہ آپ شرمندہ ہوئے اور نہ گھبرائے بلکہ ایک نئے ولولے سے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے اپنے پراپیگنڈے کو مزید زہر آلود کیا اور منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے ایک طویل دھرنہ دیا۔
اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران آپ کوک نامی پاؤڈر کے برانڈ ایمبیسڈر بھی رہے، اور اس پاؤڈر کے استعمال کے بعد کی گئی آپ کی تقاریر نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی اور مزاحیہ ضرب الامثال کی حیثیت اختیار کر لی۔

اختتامیہ:
منتخب حکومت کے خلاف طویل دھرنہ آپ کی ذاتی سیاست کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوا اور آپ کی سیاست کمزور پڑتے پڑتے آپ کے نکاحِ ثانیہ کے ساتھ ہی بسترِ مرگ پر پہنچ گئی۔ آپ کی حیثیت ملکی سیاست میں صرف ایک لطیفے کی رہ گئی۔
آپ کے بچپن میں، بقول شفیق الرحمٰن، آپ کے بارے میں بزرگ کہا کرتے تھے کہ اس بچے کا مستقبل بہت تابناک ہو گا اور جب آپ بزرگ ہوئے تو اس وقت بزرگ کہا کرتے تھے کہ اس شخص کا ماضی بہت تابناک رہا ہو گا۔

کوئی تبصرے نہیں: