ترتیب کا واہمہ تقدیر سے سوا ہے
اک چیز اٹھانے سے ترتیب بدل جاتی ہے
اک نئی ترتیب نمو پاتی ہے
اس چیز کو وہیں لوٹانے سے
پرانی ترتیب بحال نہیں ہوتی
ہاں! نئی ترتیب ضرور بےترتیب ہو جاتی ہے
چاند ستارے گھوم گھما کر پھر لوٹ آتے ہیں
اس بے ترتیبی میں زمیں بھی چکراتی جاتی ہے
کہکشاں مسافر ہے، کائنات مسافر ہے
نقطے سے آغاز ہوا، انتہا لامتناہی ہے
یہ مفروضہ بھی راسخ ہے کہ
انتہا کچھ بھی نہیں
لوٹ کے آغاز کو آنا ہے
کیا پھر سے کن فیکون کہلوانا ہے؟
بدھ، 16 نومبر، 2016
Entropy
اتوار، 6 نومبر، 2016
محب
بہت سادہ، بہت عمیق جیسے چھوٹی بحر میں غالب کی لائن
فارہہ، صوفیہ، نہ شہناز
زیدی، ثروؔت، جوؔن کی سوچ سے بڑھ کر پرخیال
مستعار لے جس سے گلزاؔر اپنے تمام استعارے
ساؔغر کی تلخی کے زہر سے، ساؔحر کی لفاظی کے سِحر سے پرے
بدر کی نمکینی، محسن کی شیرینی سے تھوڑا ہٹ کے
بابر کے عشرے کی طرح ترو تازہ
اکھیوں مں صبح صادق سی چمک، گالوں پہ شفق شام سی
دید میں حسنِ تام ہے وہ نہ شنید میں عام سی
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)