شاعری، نظم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
شاعری، نظم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 3 جنوری، 2019

جدوں دی تبدیلی آئی اے

جدوں دی تبدیلی آئی اے
ود گئی مہنگائی اے
مچی پئی دہائی اے
جدوں دی تبدیلی آئی اے

تبدیلی آئی، بتی نئیں آؤندی
بتی ہووے، گیس نئیں آؤندی
بال پڑھاواں کہ عزت بچاواں
بل تاراں کہ روٹی کھاواں
سوچدی پئی خدائی اے
جدوں دی تبدیلی آئی اے

ہر شے تے ٹیکس پئے لاندے او
بےشرماں وانگوں کھاندے او
غربت مکانی سی ٹُٹ پینیو
تسی غریب مار مکائی جاندے او
ماڑے دی گلی ہوئی تلائی اے
جدوں دی تبدیلی آئی اے

تیل اے مہنگا، دال اے مہنگی
ہر شے نال و نال اے مہنگی
جے کوئی ساڑ چا پُھوکے
پیندی اوہنوں گال اے مہنگی
گھر والیاں توں ہوندی فیر جدائی اے
جدوں دی تبدیلی آئی اے

ہن شیرو ڈبو وزیر نے
تے پھنئیر، بھیڑے مشیر نے
جو بولے اوہنوں پے جاندے
اے ہلکے ہوئے امیر نے
ذلت دی اندھیری چھائی اے
جدوں دی تبدیلی آئی اے

اتوار، 5 نومبر، 2017

حقیقت

رات پورے چاند کی تھی
ہوا بھی کچھ سرد تھی
اور تُو مرے ساتھ تھی
اسی عالمِ شوق میں، دیدِ فلک کے ذوق میں
میں بہت دُور نکل گیا
اور "اپنی سمت" چل پڑا
دُور زمیں پہ جو چراغ تھے
مری آرزو کے وہ، دلفریب باغ تھے
اور جب!
آخرِ شب کے چاند نے، مسکرا کہ یوں کہا
ہے دعا یہ دل کی
ساتھ ساتھ رہو سدا
تو اک نوا سنائی دی
اور اس تلخیٔ ایام کی اک جھلک دکھائی دی
ہر طرف ہے کِشت و خوں
زندگی جاں بلب اور چار سُو درد کا فسوں
ہے حاصلِ الفت آزردگی
اور اک مستقل شکستگی
یہ بات کچھ عجیب ہے
جو چاہ طلب ہے وہ غم سے قریب ہے
اور غم کی بات نہ کرو
غم ہے غمِ دوستی
غم ہے غمِ زندگی
غم، غمِ یار بھی ہے
غم، روزگار بھی ہے
اور جب حُسن ہو غمزدہ
تو غم شاہکار بھی ہے
اس نوائے بےصدا نے مجھے خواب سے جگا دیا
رخ زندگی کا نیا اک دکھا دیا
میری آنکھ جو کُھلی تو دیکھا کچھ اور ہی
میں دشت کے اِس پار تھا
تُو ساگر کی اُس اور تھی

ہفتہ، 29 جولائی، 2017

پشیمان آئینہ فروش


(ایک نظم جو امتنان قاضی کے بارے میں نہیں لکھی گئی)

کبھی کسی بازار میں کہیں
آئینے بیچ رہا تھا کوئی قاضی
کسی نابکار نے یہ سوال کیا
بہ صد تکریم و عجز و وقار
حضور نے یہ پیشہ کیونکر اختیار کیا؟
کیا حضور کے ذمہ تمام فرائض ادا ہو چکے؟
مجرم سزا پا چکے، مظلوم جزا پا چکے؟
عرق آلود پیشانی کے ساتھ بہ پشیمانی
آئینہ فروش کچھ یوں گویا ہوا
کچھ ایسا انصاف کیا ہے اک فیصلے میں
کسی اور کا تو کیا کہوں
آئینے سے بھی نظر نہیں ملا پایا ہوں میں
سو گھر کے تمام آئینے بازار میں لے آیا ہوں میں

بدھ، 16 نومبر، 2016

Entropy

ترتیب کا واہمہ تقدیر سے سوا ہے
اک چیز اٹھانے سے ترتیب بدل جاتی ہے
اک نئی ترتیب نمو پاتی ہے
اس چیز کو وہیں لوٹانے سے
پرانی ترتیب بحال نہیں ہوتی
ہاں! نئی ترتیب ضرور بےترتیب ہو جاتی ہے
چاند ستارے گھوم گھما کر پھر لوٹ آتے ہیں
اس بے ترتیبی میں زمیں بھی چکراتی جاتی ہے
کہکشاں مسافر ہے، کائنات مسافر ہے
نقطے سے آغاز ہوا، انتہا لامتناہی ہے
یہ مفروضہ بھی راسخ ہے کہ
انتہا کچھ بھی نہیں
لوٹ کے آغاز کو آنا ہے
کیا پھر سے کن فیکون کہلوانا ہے؟