سیاست ـ حالاتِ حاظرہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سیاست ـ حالاتِ حاظرہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 24 اپریل، 2018

تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے میری شرائط

اگر میرے مندرجہ ذیل چودہ نکات کو قبول کر لیا جائے تو میں فوری طور پر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لوں گا۔

‏‎۱۔ کوئی تحریکی کسی کو گالی نہیں دے گا۔

۲۔ جھوٹی اور غلط خبریں نہیں پھیلائی جائیں گی۔

۳۔ کسی کی بھی بالخصوص خواتین کی کردار کشی نہیں کی جائے گی۔

۴۔ یو ٹرن لینے بند کیے جائیں گے۔

۵۔ جس کسی نے بھی خواتین کو گندے میسج بھیجے ہوں، اسے پارٹی سے نکالا جائے گا۔

‏‎۶۔ غلط اور بیہودہ ٹرینڈز بنانے والوں کو پارٹی سے نکالا جائے گا۔

۷۔ ووٹ نہ دینے والوں کو جاہل نہیں کہا جائے گا۔

۸۔ لوٹوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

۹۔ اخلاقی بدعنوان شخص پارٹی عہدے کے لیے نااہل ہو گا۔

۱۰۔ پارٹی میں اہمیت کسی جہاز یا پیسے کی مرہون منت نہ ہو گی۔

‏‎۱۱۔ انٹرا پارٹی الیکشنز میں دھاندلی میں ملوث لوگوں کو پارٹی سے بلیک لسٹ کیا جائے گا۔

۱۲۔ فنڈنگ، بالخصوص فارن فنڈنگ یہودیوں اور ہندوستانیوں سے نہیں لی جائے گی۔

۱۳۔ اسرائیل کی وفاداری چھوڑ کر، صرف اسلام اور پاکستان سے وفاداری پارٹی کا نظریہ ہو گا۔

‏‎۱۴۔ تحریک انصاف کو پاکستان مسلم لیگ ن میں ضم کر دیا جائے گا۔

جمعہ، 28 مارچ، 2014

لشکرِ جھنگوی کا بلاول کو خط


سب سے پہلے تو یہ واضح کر دینا لازم ہے کہ مجھے القاعدہ، طالبان، لشکرِ جھنگوی اور سپاہِ محمد وغیرہ کسی بھی دہشت گرد جماعت سے کسی بھی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں ہے ـ اس وضاحت کے بعد آگے بڑھتے ہوئے، بلاول زرداری کو لشکرِ جھنگوی کی طرف سے ملنے والے مبینہ دھمکی آمیز خط کی طرف چلتے ہیں ـ
دو ہزار تیرہ کے انتحابات کے بعد پیپلزپارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور اس وقت صوبہ میں ان ہی کی حکومت ہے ـ کارکردگی ایسی بے مثال کہ آسمان بھی محوِ حیرت ہے کہ یہ کیسی حکومت ہے ـ کراچی میں قتل و غارت ہی کم نہ تھی کہ تھر میں بدانتظامی کی انتہا کے باعث پیدا شدہ قحط کی وجہ سے سینکڑوں معصوم جانوں کے ضیاع نے بھی چنری کو مزید داغدار کر دیا ـ
ابھی ان جاں بحق ہونے والوں کی قبروں کی مٹی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ سابقہ صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری نے سوئس بینکوں میں موجود بینظیربھٹو کے لاکھوں ڈالر کے مالیت کے زیورات کا بھی مطالبہ کر کے تھر اور کراچی کے مظلومین کے لواحقین کے زخموں پر خوب نمک چھڑکا ـ یاد رہے کہ ان زیورات کے بارے میں بینظیربھٹو انکار کر چکی ہیں کہ یہ ان کی ملکیت ہیں یا ان سے ان کا کسی قسم کا کوئی تعلق ہے ـ کچھ اسی قسم کا معاملہ ماضی کے مشہور سکینڈل سرے محل کا بھی تھا جس کی ملکیت سے پہلے انکار کیا گیا مگر بعد میں اس کو ملکیت تسلیم کیا گیا ـ اگر کسی کو اس بارے میں کسی قسم کا کوئی ابہام ہو تو وہ بی بی سی پہ اس بارے موجود خبریں دیکھ سکتا ہے ـ
اس "شاندار کارکردگی" کے باعث پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا گراف تیزی سے آسمانوں سے بھی بلند ہو رہا تھا اور میڈیا بھی پیپلزپارٹی سے ایسے سوال پوچھ رہا تھا جن کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ـ سندھی عوام بھی پیپلزپارٹی سے بدظن ہونے کی آخری حدود کو چھو رہی تھی ـ تو ایسے صورتحال میں ان معاملات سے توجہ ہٹانے اور ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے کچھ تو چاہیے تھا ـ
تو اچانک ایسے میں لشکرِ جھنگوی کی طرف سے بلاول زرداری کو دھمکی آمیز خط ملتا ہے اور اس کا موردِ الزام پنجاب حکومت اور شریف برادران کو ٹھہرانے کی دانستہ کوشش کی جاتی ہے ـ یہاں ایک اہم چیز، اس مبینہ خط کا لشکرِ جھنگوی کی طرف سے ہونا ہے طالبان یا کسی دوسری ایسی جماعت کی طرف سے نہیں ـ اس ضمن میں شاید پنجاب حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا زیادہ آسان اس لیے ہے کہ پنجاب حکومت کے اہم ترین وزیر رانا ثناءاﷲ کی مولانا محمد احمد لدھیانوی کے ساتھ روابط اور تصاویر ہیں ـ اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ لدھیانوی صاحب کی جماعت کو پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے دور میں کالعدم کیوں قرار نہیں دیا اور ان صاحب کو گرفتار کر کے قانون کی عدالت میں پیش کیوں نہ کیا؟ ایک اور اہم بات یہ کہ شریف برادران کی اگر لشکرِ جھنگوی کے ساتھ محبت ہے اور وہ ان کی سرپرستی بھی کرتے ہیں تو سبزہ زار پولیس مقابلہ کیا ہے اور اس کا مقدمہ کس کے خلاف ہے؟
اب پنجاب حکومت کو موردِ الزام ٹھہرا کر سندھ کارڈ کھیلا جائے گا، معصوم سندھی عوام کی ہمدردیاں بٹوری جائیں گی اور سندھ حکومت کی شاندار کارکردگی کو جاری رکھا جائے گا ـ
آخر میں بلاول زرداری کے لیے دعا ہے کہ اللہ ان کی زندگی کو محفوظ رکھے، وہ اپنے خاندان کا اثاثہ اور زرداری قبیلے کے سردار ہیں اور ان سے استدعا ہے کہ براہِ کرم اپنی توجہ اپنی پارٹی کی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے کی طرف کریں تاکہ عوام کی زندگیاں بھی محفوظ رہ سکیں ـ