مجھے ڈر ہے
کہ پہلے دھماکے سے لیکر اب تک
ازلی آقا جو عرش و اولمپس و ہمالہ
پہ براجمان ہمارے خدا بنے بیٹھے ہیں
وقت کی ابتداء سے ہی جنہوں نے
غریبوں ناداروں مفلسوں کے پسینے سے
کمائے سِکّوں کی قربانی طلب کی
اور اس قربانی کے عوض فقط
ایک آس ایک امید ایک دلاسا دیا
اور اگر کبھی زردار سے خراج بھی لیا
تو وہ خراج بھی
مفلسی کے خون سے ادا کیا گیا
مجھے ڈر ہے
ان ازلی آقاؤں کی نسلیں بھی
کسی آخری دھماکے میں معدوم نہ ہو جائیں
2 تبصرے:
خیال اور الفاظ کا چناؤ دونوں ہی عمدہ
بہت خوب!
ایک تبصرہ شائع کریں