منگل، 22 ستمبر، 2015

غازان کی پانچویں سالگرہ پر

میرے بیٹے میری جان!
ہاں یہی سچ ہے کہ تم میرے پاس نہیں
تمہیں شاید ابھی یہ علم بھی نہ ہو کہ بابا
تمہیں یاد کر کے رو رہے ہیں
تمہیں شاید کبھی یہ علم بھی نہ ہو کہ بابا
ہر پل خود سے دُور ہو رہے ہیں
میرے بیٹے!
اپنے بےقصور باپ کو ہو سکے تو معاف کر دینا
اپنی ماں کی بے تحاشہ خدمت کرنا
اور اگر کبھی ہو سکے تو بصد احترام اس سے یہ پوچھ لینا
"ماں! کیا تم مجھے ویسا شوہر بنتے دیکھنا پسند کرو گی، جیسا تم میرے بابا کو بنانا چاہتی تھیں"
میری جان!
اس سالگرہ پر بھی ہم ساتھ نہیں
پانچ سالگرائیں کیسے گزر گئیں پتہ ہی نہ چلا
مگر ان پانچ برسوں میں ہر پل نے تمہارے بابا کی رگوں کو اندر سے کاٹ ڈالا ہے
ہو سکے تو اپنے بابا کو معاف کرنا میری جان
میرے غازان۔

پیر، 21 ستمبر، 2015

بیٹا

عجب رشتہ ہے اُس شخص سے اپنا
میں نے کبھی اُس کی چاہت کو مکمل پایا نہیں
اُس کی سختی ہی یاد آتی ہے، اُس کا گھنیرا سایہ نہیں
اس کی تقسیم شدہ محبت میں سے مجھے
شاید ہی کوئی لمحہ فقط مرے لیے ملا ہو
خط تو پرانے دور کی بات ہے
شاید ہی کوئی محبت بھرا پیغام ملا ہو
اس سے دُور رہنے کے لیے
میں خود سے بھی دُور ہوتا گیا
مگر آج بعد مدت کے
آئینے میں خود کو دیکھ کے یوں لگا
جو نہیں چاہتا تھا، وہی بنتا جا رہا ہوں
میں اپنے والد جیسا ہوتا جا رہا ہوں

بدھ، 16 ستمبر، 2015

خود کشی سے کچھ دیر پہلے

حساسیت کے احساس سے
مایوس عوام الناس سے
ایک زندہ دل شخص
گناہ و ثواب کے عقائد سے ماورا ہو کر
روح کو قیدِ جسم سے آزاد کر رہا ہے
ہاں! اپنی سالگرہ سے کچھ دیر پہلے
وہ شخص خودکشی کر رہا ہے۔

اتوار، 13 ستمبر، 2015

کراماتِ مجاہد اعظم و خفیہ جنگیں

راولپنڈی کے ایک بزرگ بیان فرماتے ہیں کہ پچھلے ہفتے میں تہجد پڑھ کر سویا تو میرے مرشد میرے خواب میں تشریف لائے اور حکم دیا، اٹھو! مجاہدِ اعظم پر شیطانی حملہ ہونے لگا ہے اور تم بےخبری کی نیند سو رہے ہو۔ فوراً دامنِ کوہ پہنچو، وہاں پر ہندوستان اور اسرائیل سے آئے ہوئے پنڈت اور ربی اپنے منحوس شیطانی کالے جادو سے مجاہدِ اعظم پر اوچھے وار کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر مجاہدِ اعظم کو ہلکی سی بھی آنچ آئی تو قیامت کے دن تمہاری بخشش نہیں ہو گی۔
بزرگ فرماتے ہیں کہ میں فوراً گھر سے نکلا، دروازے سے نکلتے ہی میں نے کیا دیکھا کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس چند فقیر میرا انتظار کر رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کہا کہ دفاعِ مجاہدِ اعظم کے لیے ہم مجذوبین کی خدمات بھی قبول کریں۔ میں نے انہیں ساتھ لیا۔ ایک مجذوب نے میرا ہاتھ پکڑ کر آنکھیں بند کرنے کو کہا۔ تھوڑی دیر بعد جب آنکھیں کھولنے کو کہا تو میں نے دیکھا کہ ہم دامنِ کوہ میں تھے اور وہاں پندرہ پنڈت اور تیرہ یہودی ربی شیطانی عملوں میں مصروف تھے۔ مجاہدِ اعظم کے پتلے بنا کر ان میں سوئیاں چبھوئی جا رہی تھیں۔ ماش کی دال کے پتلوں کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا۔ بدبختوں نے کہیں سے گائے کی ران کی مکمل ہڈی بھی کہیں سے حاصل کر رکھی تھی اور اس کو شدید ترین کالے جادو میں استعمال کر رہے تھے۔
بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے روحانی آنکھ سے جائزہ لیا تو کیا دیکھا کہ ان کے ہزاروں بیر پہرے پر مامور ہیں۔ میں ابھی یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ میرے مرشد کی دبنگ آواز میرے کانوں میں گونجی کہ روکو انہیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ یہ سنتے ہی میں نے ان یہود و ہنود کو للکارا۔ میری روحانی للکار سے ان کے جاپ اور منتر رک گئے۔ اور ان بدبختوں کی تمام تر توجہ ہماری طرف مبذول ہو گئی۔ ان نے اپنے بیروں کو ہم پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ ہمارے ارد گرد مکروہ شکلوں والے سینکڑوں بیر نمودار ہو گئے۔ بیروں کو دیکھتے ہی مجذوبوں پر جذب کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اور انہوں نے فوراً بیروں کے واروں کو روکا اور ان کو واصلِ جہنم کرنے لگ گئے۔ لیکن بیروں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ وہ آگے بڑھتے چلے آ رہے تھے۔ اچانک ایک مجذوب نے جذب کی کیفیت میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گواہ رہنا، میں نے مجاہدِ اعظم کی حفاطت کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ یہ کہتے ہی اس عظیم مجذوب نے خود کو آگ کے شعلوں میں غرق کیا اور بیروں کے درمیان گھس گیا۔ بیروں میں کھلبلی مچ گئی۔ مجذوب جدھر کا رخ کرتا دسیوں بیر جل کر خاکستر ہو جاتے۔ ایسے ہی بیروں کو جلاتے جلاتے، اس نے اپنی جان قربان کر دی۔ اس کے بعد بیروں کا حملہ پھر شدت پکڑ گیا، قریب تھا کہ ہم مغلوب ہو جاتے کہ اچانک نعرۂ تکبیر بلند ہوا اور چند نوجوان نمودار ہوئے، پیشانیاں جن کی روشن اور آنکھیں جن کی ایسی کہ نظر ملائے نہ ملے۔ ان جوانوں نے آتے ہی شیطانی بیروں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ یہ جوان آگے بڑھتے گئے، جو بیر ان کے نزدیک آتا خود ہی جل کر خاک ہو جاتا۔ ذرا سی دیر میں بیروں کا تمام لشکر تباہ و برباد ہو چکا تھا۔ نوجوان واپس جانے لگے تو میں نے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟ تو ان کے لیڈر نے جواب دیا کہ ہم اس قوم کے بےنام محافظ ہیں۔ ہم وہ ہیں، جن کا کوئی چہرہ نہیں ہوتا، ہم مرتے ہیں تو کوئی گواہ نہیں ہوتا۔ ہم آب و پارہ سے بنے ہیں، ہم برق ہیں، ہم شعلۂ مستور ہیں۔ ہمارا کام یہاں ختم ہوا۔ اب آگے آپ کا کام ہے۔ میں نے اس کے ہاتھ چومے اور عرض کی کہ ہمارے لیے بھی دعا کرنا، تمہارا جہاں اور ہے، ہمارا جہاں اور۔
بزرگ فرماتے ہیں کہ اب پندرہ پنڈتوں اور تیرہ ربیوں کے مقابلے میں، میں اور میرے ساتھ چند مجذوب رہ گئے تھے۔ اتنے میں تین پنڈت آگے آئے اور انہوں نے کچھ منتر پڑھ کر ہماری طرف پھونکا تو اچانک ہم پر سانپوں کی بارش ہونے لگی۔ ایک مجذوب نے آگے بڑھ کر ایک سانپ کو پکڑا اور اس کا سر توڑ ڈالا، اور اسی سر کو واپس پنڈتوں کی طرف اچھال دیا۔ سانپ کا سر ایک بڑے سے پتھر میں تبدیل ہو گیا اور ان تینوں پنڈتوں کو کچلتا ہوا آگے جا کر ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ پنڈتوں کے جسم سے آگ کے شعلے نکلنے لگے اور سی دیر میں انکی ہڈیاں تک راکھ میں بدل گئیں۔ یہ منظر دیکھتے ہی تمام پنڈت اور ربی ہم پر پل پڑے اور وہاں گھمسان کا رن پڑ گیا۔ سب ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے تھے۔ وہاں سے کالا جادو کیا جا رہا تھا تو یہاں سے نوری علم سے اس کالے جادو کی کاٹ و پلٹ کی جا رہی تھی۔ پنڈت اور ربی جہنم کا ایندھن بن رہے تھے تو مجذوب بھی جنت کو عازمِ سفر ہو رہے تھے۔ جب صورتحال کچھ واضح ہوئی تو میرے سامنے ایک پنڈت اور ایک ربی کھڑے تھے۔ میرے تمام ساتھی راہی ملکِ عدم بقا ہو چکے تھے تو انکے ساتھ والے شیطانی گماشتے بھی اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔
بزرگ فرماتے ہیں کہ جب میں نے غور سے کیا تو احساس ہوا کہ جو یہودی ربی تھا یہ یہودیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتا تھا جس کے ذمے ہیکلِ سلیمانی کی دیکھ بھال اور سربراہی تھی۔ اس یہودی ربی نے اپنی تمام عمر یروشلم میں بیت المقدس کے قریب زیر زمین، اسرائیلی حکومت کی زیر سرپرستی قائم شدہ ہیکلِ سلیمانی کے تہہ خانوں میں شیطانی علوم کی پریکٹس کرتے ہوئے گزاری تھی۔ روحانی حلقوں میں اس کے بارے میں مشہور تھا یہ شخص اتنا بڑا شیطان ہے کہ اگر دجال بھی آ جائے تو اس شخص کی شاگردی قبول کر لے۔ خود اس شخص کا دعوٰی تھا کہ دجال اس کی اولاد میں سے ہو گا، یہ اور بات ہے کہ اس شخص نے قانونی طور پر کبھی شادی نہیں کی تھی۔
اس کے ساتھ جو پنڈت تھا، وہ ہمالیہ کی ترائی میں رہنے والے اس برہمن خاندان کی نسل سے تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ نسل برہما دیوتا کے ناک کے بال سے وجود میں آئی تھی اور اس کا کام ہندومت کو ایسے شُدھ رکھنا ہے، جیسے ناک کے بال سانسوں کی ہوا سے آلائشیں روک کر صرف صاف ہوا پھیپھڑوں میں پہنچاتے ہیں۔ لیکن اس مردود پنڈت نے شیطانی طور اپنائے اور شیطانیت میں اس قدر عروج حاصل کیا کہ کہنے والے کہتے ہیں کہ کالی دیوی نے کئی بار اس کے چرنوں میں بھینٹ دی۔
بزرگ بیان فرماتے ہیں کہ ان دونوں رزیلوں نے مجھ پر شدید شیطانی حملے کیے، میں اپنی روحانی قوتوں سے ان کو روکتا رہا۔ رفتہ رفتہ ان کے حملوں میں شدت بڑھتی گئی، حتٰی کہ وہ نوبت آ گئی کہ قریب تھا کہ میں مغلوب ہو جاتا مگر اچانک میرے دائیں بائیں دو پرنور ہیولے نمودار ہوئے۔ دائیں طرف والے ہیولے نے دشمنوں کو مخاطب کر کے کہا کہ تم مجھ تک پہنچنا چاہتے تھے، لو میں خود آ گیا ہوں۔ میرا جو بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو۔ ان مردودوں نے اپنا ہر جادو، ہر حربہ آزمایا مگر اس پرنور ہیولے پر اثر نہ ہوا۔ پھر اس شخصیت نے بائیں طرف والی شخصیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، اے دروغۂ جنت برائے محب وطنان و دشمنِ ساقیان آبِ ہوسِ جرم و ایمان و ننگانِ وطن، ان دونوں ننگِ ناموسِ انسانیت کو جہنم واصل کر دو مگر اس سے پہلے ان کو اپنے عجائب خانہ جاتِ عمیق کی سیر ضرور کروا دینا کہ شائد ان کے دل کچھ منور ہو جائیں۔ بائیں شخصیت آگے بڑھی، ربی و پنڈت کے کندھوں پر ہاتھ رکھا، روشنی کا ایک جھماکہ ہوا اور وہ تینوں نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ پھر اس پرنور شخصیت نے مجھ سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ میں ہوں مجاہد اعظم اور مجھے آپ کی پرفارمنس پسند آئی ہے، اس کے لیے آپ کو ضروری انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔
بزرگ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد مجاہد اعظم نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دھکا دیا تو میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا۔ میرا چھوٹا بیٹا دروازے پر ایک سٹیکر چپکا رہا تھا، جس پر مجاہد اعظم کی تصویر کے ساتھ میرے دل کے جذبات بھی تحریر تھے، "شکریہ راحیل شریف"

جمعرات، 27 اگست، 2015

خاکہ ۔ سوشل میڈیائی دلالشور

آپ ایک سوشل میڈیائی دلالشور ہیں، آپ کی صورت سے بےپناہ دلالت ٹپکتی ہے۔ جنسی حوالہ جات اور مغلظات آپ کا محبوب مشغلہ ہیں۔ دلالت اس طرح سے آپ کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے کہ آپ کی گفتگو دلال، رانڈ وغیرہ جیسے الفاظ کے بغیر پوری نہیں ہوتی۔ شائد، بقول آپ کے اپنے، آپ اپنی ہیرا منڈی میں گزری ہوئی زندگی کے سحر سے نہیں نکل سکے۔ اسی وجہ سے ہر دوسری عورت آپ کو رانڈ اور بیسوا لگتی ہے اور جو مرد آپ سے اختلاف کی جرآت کرے اسے بھی فوراً ولد الحرام وغیرہ جیسے القابات سے نواز دیتے ہیں۔ ظاہری بات ہے، جیسا ماحول، ویسی پرورش اور ویسے ہی خیالات۔
آپ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ہر بات میں جنسی حوالہ دینا لازم سمجھتے ہیں۔ شنید ہے کہ اس مادر زاد اندھے کے مانند جسے دیکھنے کی چاہ ہو لیکن اسے علم ہو کہ وہ کبھی دیکھ نہیں سکتا۔ گھر میں کھانا بھی مانگیں تو کہتے ہیں۔۔۔ روٹی اور سالن کی ہم بستری کب ہوگی؟ علی ہذا القیاس
‏آپ اکثر خوش شکل ڈی پی والی زنانہ آئی ڈیز کی ٹی ایلز پر پائے جاتے ہیں اور انہیں اخلاق عالیہ اور اچھی باجی بننے کے طریقے بتاتے ہیں۔ ان طریقوں میں اچانک ہم بستری کا ذکر شروع کردیتے ہیں، اور اس نازک مقام پر جو خاتون آپ سے بات جاری رکھے اسے سندِ شرافت سے نوازتے ہیں اور جو گفتگو ختم کرنے کی گستاخی کی مرتکب ہو اسے موقع پر ہی گشتی وغیرہ کے لقب سے نواز دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پہ اپنی دلالشوری پہ مہر ثبت کرنے کے لیے آپ اکثر ذاتی مزاح بھی شئیر کرتے رہتے ہیں۔ جن میں سے اکثر آپ کی زوجہ محترمہ کے متعلق ہوتا ہے۔ آپ کا اپنا شئیر کردہ آپ اور آپکی زوجہ کے درمیان گاجروں کے متعلق مکالمہ آپ کی دلالت پر مہر ثبت کر گیا۔
‏کاروبار میں اضافے کے لیے آپ اپنی ہیرامنڈی سے مشرقِ وسطٰی منتقل ہو چکے ہیں۔ دروغ بر گردن راوی، ایک دن آپ کو وہاں پا کر ایک "پرانے واقف" کو خوشگوار حیرت ہوئی اور اس کے استفسار پر بتایا کہ پہلے گروپ لیکر آتا تھا، تو صرف کمیشن بچتا تھا، اب فیملی کے ساتھ شفٹ ہو گیا ہوں تو بہت برکت ہو گئی ہے۔
یہ نامکمل خاکہ یہیں روکا جا رہا ہے۔ اس میں اضافہ و ترمیم کی گنجائش موجود ہے۔

بدھ، 22 جولائی، 2015

بےموضوع کہانی

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب انسان ترقی کی بہت زیادہ منزلیں طے کر چکا تھا اور ستاروں پر کمند ڈالنے کا خواب، حقیقت کا روپ دھار چکا تھا۔ انسان نے مریخ کو اپنی کالونی بنا لیا ہوا تھا۔ سائنسی طریقوں کی مدد سے مریخ کی آب و ہوا کو تبدیل کر کے انسانوں کی رہائش کے قابل بنایا گیا تھا اور اب انسان بغیر ماسک وغیرہ کے بالکل عام انداز سے مریخ پر رہائش پذیر ہو سکتے تھے۔ اس سے زمین پر انسانی آبادی کے بےپناہ دباؤ کو بھی ختم کرنے کی کوشش کو بھی تقویت ملی تھی۔
زمین سے کئی سو نوری سال کے فاصلے تک انسان کی بنائے ہوئے مصنوعی سیارے پہنچ چکے تھے اور ایک ایسا نظام وضع کیا جا چکا تھا کہ روبوٹس کی استعمال سے دوسرے سیاروں سے معدنیات اور دوسرے قدرتی وسائل کشید کر کے زمین اور مریخ پر موجود انسانی کالونیوں تک پہنچایا جاتا تھا۔ چاند بھی بطور خلائی سٹیشن استعمال ہو رہا تھا۔
یہ سب پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آگے بیان کی گئی کہانی کو سمجھنے میں قاری کو آسانی رہے اور عمومی طور پر اس قسم کی کہانیوں کو پڑھتے ہوئے قارئین کے ذہن میں جو سوالات اٹھتے ہیں، وہ نہ اٹھیں اور قارئین کی توجہ کہانی پر ہی مبذول رہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ اس کہانی میں مرکزی کردار یا ہیرو اور ولن تلاش کرنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ اس کہانی میں کردار نہیں ہیں بلکہ جیتے جاگتے انسان ہیں، جو کہ ہم سب کی طرح نفی اور اثبات کا مرکب ہیں اور کہانی کے آخر میں قاری کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کہانی بالکل حقیقت پر مبنی ہے۔ اب دوبارہ کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔
اسی ترقی کے دور میں یہ وقت آ گیا کہ زمین پر تمام ممالک کی طرف سے یہ مشترکہ فیصلہ کیا گیا کہ اب چونکہ زمین پر آبادی بےتحاشہ بڑھ چکی ہے اور مریخ کو بھی قابل رہائش بنا دیا گیا ہے لہذاٰ اب آبادی کا کچھ حصہ زمین سے مریخ کی طرف منتقل کیا جائے اور اس کام کے لیے جو اخراجات درکار ہوں گے وہ دنیا کے تمام مل کر فراہم کریں گے اور جس ملک کا جتنے فیصد حصہ اخراجات میں ہو گا، اس کی آبادی کے اتنے فیصد حصے کو مریخ پر منتقل کرنے کی اجازت ہو گی اور اس کے علاوہ اس ملک کو مریخ پر بھی اتنے ہی فیصد رقبے کا حقدار ٹھہرایا جائے گا۔ اس فیصلے کی ایک اہم شق یہ بھی تھی کہ اخراجات کی مد میں ادا کی گئی رقم میں ہر ملک اپنی معاشی حالت کے پیش نظر کمی بیشی کر سکتا ہے اور اسی تناسب سے مریخ پر اس کی آبادی اور رقبے میں بھی کمی بیشی ہو جائے گی۔
اب انسانی آبادی کے زمین سے مریخ پر بڑے پیمانے پر انتقال کی تیاری شروع ہو گئی اور حسب توقع دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک نے اس میں بھی اپنی واضح برتری برقرار رکھی۔ آبادی اور رقبے کے انتقال میں ایک شق یہ بھی رکھی گئی تھی کہ مریخ پر زمین کی طرح علیحدہ علیحدہ ممالک کی سرحدیں نہیں بنائی جائیں گی بلکہ ایک متحدہ حکومت منتقل شدہ آبادی کو گھر اور کاروبار کی جگہ فراہم کرے گی جو کہ رقبے اور آبادی کے تباسب کے عین مطابق ہو گی۔ یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا کہ مریخ پر بھی زمین کی طرح جنگیں نہ ہوں بلکہ مریخ بین الاقوامی انسانی برادری اور بھائی چارے کا مرکز بن جائے۔
تقریباً پانچ سالوں میں آبادی کے انتقال کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا۔ زمین سے مریخ پر منتقل ہونے والوں کو خصوصی بیج فراہم کیے گئے تھے جن میں ان افراد کی قومیت، رنگ، نسل اور زمین پر موجود خاندان کا مکمل ریکارڈ موجود تھا تاکہ کسی بھی ناخوشگوار حادثے کی صورت میں جلد از جلد زمین پر ان کے اقرباء کے ساتھ رابطہ قائم کیا جا سکے۔ مریخ کو مختلف شہروں میں تقسیم کیا گیا اور یہ کوشش کی گئی کہ قانون کے مطابق رہائشی اور کاروباری تقسیم کی جائے اور ہر شہر میں ہر رنگ، نسل اور قومیت کے لوگوں کو بسایا جائے۔
ایسے ہی ایک شہر نے مریخ پر بہت تیزی سے اپنا مقام بنایا اور کاروباری لحاظ سے مریخ کا صفِ اول کا شہر بن گیا۔  جیسا کہ تمام انسانی آبادیوں میں ہوتا ہے اس شہر میں بھی جرائم کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور پھر جیسا کہ ہوتا آیا ہے جرائم کی بیخ کنی کے لیے پولیس طرز کا ایک محکمہ قائم کیا گیا اور اس کے علاوہ نجی طور پر بھی سیکیورٹی گارڈ وغیرہ رکھنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔
اسی شہر کے ایک ریستوران میں ایک پارٹی جاری تھی۔ جام و مے کے دور چل رہے تھے اور اگر کائنات کی نہیں کم سے کم ہماری کہکشاں کی تمام نعمتیں موجود تھیں۔ رات گہری ہوتی گئی, مریخ کے آسمان پر فوبوس اور ڈائموس دمک رہے تھے اور اپنے ناموں کے برعکس یہ دونوں چاند خوف اور دہشت کی بجائے حسن اور خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے تھے۔ اسی حسین محفل میں اچانک دو لوگوں کے درمیان تکرار شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر میں ہی یہ واضح ہو گیا کہ یہ تکرار نسلی تفاخر پر ہو رہی ہے اور لڑنے والےزمین کے سعودی اور ایرانی شہری ہیں۔ انتظامیہ نے حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے پارٹی کو فوراً ختم کر دیا۔ یہ دونوں بھی پارٹی سے نکلے۔ پارکنگ میں پہنچے تو دونوں کے جذبات ایک بار پھر بے قابو ہو گئے، جھگڑا دوبارہ شروع ہو گیا اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ دونوں کے باڈی گارڈ بھی موقع پر پہنچ گئے اور وہ بھی اس جھگڑے میں شامل ہو گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ دونوں گارڈز نے اسلحہ نکالا اور ایک دوسرے پر فائرنگ کر دی۔ جدید تباہ کن ہتھیاروں کی فائرنگ سے دونوں گارڈز موقع پر ہلاک ہو گئے۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر سعودی اور ایرانی دونوں کو حراست میں لے لیا۔ گارڈز کے بیج چیک کیے گئے تو پتہ چلا کہ مرنے والے دونوں پاکستانی تھے۔

منگل، 2 جون، 2015

نصیحت

موڑ مڑتے ہوئے اس نے گاڑی کی رفتار آہستہ کی اور بائیں ہاتھ جگماتی تین عمارتوں کو دیکھا۔ ہاتھ بڑھا کر، ڈیش بورڈ پر پڑا ہوا کارڈ اٹھایا۔ شادی ہال کا نام پڑھا، گھڑی پر وقت دیکھا اور ایک سکون بھری سانس لی۔ وہ کارڈ پر دئیے ہوئے وقت سے صرف پندرہ منٹ لیٹ تھا۔ اسے یقین کی حد تک امید تھی کہ وہ اپنے بہترین دوست کے ولیمے پر وقت پہ ہی پہنچ گیا ہے اور ابھی تک سوائے دلہے کے گھر والوں کے شادی ہال میں کوئی بھی نہ پہنچا ہو۔
اُس نے گاڑی، دوسرے نمبر والے شادی ہال کے پاس ایک ایسی جگہ پارک کی، جہاں سے واپسی پر رش کے باوجود گاڑی نکالنے میں دشواری نہ ہو۔ ساتھ ہی اس نے دل میں سوچا کہ جلدی آنے کا یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ پارکنگ کے لیے مرضی کی جگہ مل جاتی ہے۔ گاڑی بند کرنے سے پہلے، اس نے بیک ویو مرر میں اپنا جائزہ لیا، جیبی کنگھا نکال کر بال ایک بار پھر درست کیے۔ ساتھ والی سیٹ پر رکھا چھوٹا بیگ کھولا، اس کی عادت تھی کہ وہ کسی فنکشن پر یا دوسرے شہر جاتے مکمل تیاری کے ساتھ جاتا تھا، اپنا ٹراؤزر ٹی شرٹ ایک چھوٹے بیگ میں ساتھ لے جاتا تھا ۔ واپسی پر وہ کپڑے تبدیل کر کے ٹراؤزر ٹی شرٹ پہن لیتا تھا کیونکہ اس لباس میں وہ زیادہ پرسکون رہتا تھا، زیادہ دیر تک فارمل کپڑوں میں اسے الجھن ہوتی تھی۔ اس بیگ میں اس نے سفری ضروریات کی چھوٹی موٹی چیزیں بھی رکھی ہوتی تھیں۔ خیر، اس نے بیگ کھولا، فرانس سے خصوصی طور پر منگوایا ہوا اپنا پسندیدہ پرفیوم نکالا اور اچھی طرح کپڑوں پر سپرے کیا۔ پھر آفٹر شیو لوشن نکالا اور وہ بھی اچھی طرح اپنے چہرے پر تھتھپایا۔ بیگ کی زپ بند کی۔ گاڑی بھی بند کی۔ بیگ لیکر باہر نکلا، بیگ ڈگی میں رکھ کر ڈکی بند کی اور شادی ہال کی طرف بڑھا۔
وہاں اس کی توقع کے عین مطابق معدودے چند لوگ موجود تھے۔ اس کا دوست اپنے والد اور بڑے بھائی کے ساتھ داخلی دروازے پر کھڑا مہمانوں کا استقبال کر رہا تھا۔ ولیمے کا سُوٹ جو اس نے اپنے دوست کے لیے پسند کیا تھا، وہی سُوٹ پہنے خوب جچ رہا تھا۔ یونیورسٹی دور کے بہترین دوست تھے دونوں، اور وہیں انہوں نے کسی روز کسی رو میں بہہ کر یہ عہد کیا تھا کہ وہ اپنی اپنی شادی پر ایک دوسرے کی مرضی کا سوٹ پہنیں گے۔ اس لیے جب اس دوست کی شادی طے ہوئی تو اس نے حسبِ وعدہ اس کے ساتھ جا کر سُوٹ خریدا، سُوٹ کے پیسے اس کے سسرال نے دئیے تھے۔ شاید یہ کوئی رسم تھی کہ ولیمے پر دلہن، لڑکے والوں کی طرف سے دیا گیا جوڑا پہنے گی اور دلہا لڑکی والوں کی طرف سے۔
یہ سب یاد کرتے ہی اس کے چہرے پر بےاختیار ایک مسکراہٹ ابھری، اور وہ اپنے دوست کی طرف گرمجوشی سے بڑھا۔ دوست نے بھی اسے دیکھا تو ایک شرمیلی مسکراہٹ اس کے چہرے پر ابھری اور وہ بھی اس سے ملنے کو آگے آیا۔ دونوں دوست گرمجوشی سے گلے ملے، اور اس نے دوست کے کان میں سرگوشی کی، "ہاں بھئی، کیا بنا؟ کھانا ہے کہ ولیمہ؟ پتہ نہیں کیا ہوا، دوست کا مُوڈ ایک دم بدل گیا، اس نے خشکی سے کہا! یار تم ہال کے اندر نہ جانا، یہیں ایک سائیڈ پہ انتظار کرو، میں فری ہو جاؤں تو تفصیلی بات کرتے ہیں۔
اس کو عجیب سا تو لگا مگر دوست کی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے سوچا کہ دوست کے والد اور بھائی کو مبارک دے لے تو پھر ایک سائیڈ پہ رک کر انتظار بھی کر لے گا اور ایک دو سگریٹ بھی پی لے گا۔ اس نے دوست کے والد کو سلام کیا، گلے ملنے کی کوشش کی تو انکل نے کافی سرد مہری سے اسے روک دیا۔ ساتھ ہی دوست کے بڑے بھائی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف لے جا کر کہا کہ آپ یہاں انتظار کریں، آپ کی وجہ سے لوگ ڈسٹرب ہو رہے ہیں۔
اس کو بہت سبکی محسوس ہوئی، لیکن پھر خیال آیا کہ دوست کی فیملی پردے کی کافی پابند ہے، شاید مستورات نے گزرنا ہو، اس لیے ایسا کہا۔ انہی سوچوں میں گم اس نے سگریٹ سلگا لیا اور انتظار کرنے لگا کہ ابھی کوئی دوسرا دوست آئے گا تو محفل جم جائے گی۔ اتنی دیر میں شور بلند ہوا کہ مہمان آ گئے ہیں۔ بھابھی کے گھر والوں کا استقبال ہوا اور سب لوگ ہال کے اندر چلے گئے۔ یہ وہیں کھڑا سوچ رہا تھا کہ ہوا کیا ہے۔ بےعزتی کے احساس سے اب اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اور کوئی دوست بھی ابھی تک نہیں آیا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب اندر جا کر دوست کو ملے، سلامی دے اور اجازت لے، اور ساتھ ہی دل میں یہ عہد کیا کہ یہ اس دوست کے ساتھ آخری ملاقات ہو گی۔ اتنی توہین کے بعد، دوستی جاری رکھنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
یہ عہد کرتے ہی وہ ہال کی طرف بڑھا، دروازے سے اندر کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ کھانا کھل چکا تھا اور لوگ کھانے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ دلہا بھی اپنے کزنز کے ساتھ ایک میز کے گرد بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ توہین کا احساس دوچند ہو گیا۔ وہ ہال کے اندر داخل ہونے ہی لگا تھا کہ اچانک دلہے کے بھائی کی آواز آئی کہ چوکیدار، اسے روکو۔ لیکن اس سے پہلے کہ چوکیدار اس تک پہنچتا، یہ لپک کر ہال کے اندر پہنچ گیا۔
ایک دم ہال میں سناٹا چھا گیا۔ مانو، سوئی گرے تو آواز آئے۔ پھر ایک دم ملی جلی آوازیں بلند ہوئیں، یہ کون ہے؟ ایک دو نوجوان اس کی طرف بڑھے مگر ایک دم سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے، جیسے انہیں چکر آ رہے ہوں۔ خواتین کے حصے سے آواز آئی، ہمارا سانس بند ہو رہا ہے۔ دلہا ایک دم چکرا کر گرا اور بیہوش ہو گیا۔ ہال میں ایک ہڑبونگ مچ چکی تھی۔ لوگ باہر کی طرف بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے مگر، بےسود، دھکم پیل کے سبب کوئی کامیاب نہ ہو رہا تھا۔ لوگ بیہوش ہو ہو کر گر رہے تھے۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ ایسا ہو کیوں رہا ہے۔ اچانک، ایک دم اس کے ذہن میں والدہ کی نصیحت چمکی۔ گھر سے روانہ ہوتے وقت انہوں نے کہا تھا، "گُجروں کی شادی پہ جا رہے ہو، خوشبو لگا کر مت جانا۔"