یہ اُن دنوں کی بات ہے جب انسان ترقی کی بہت زیادہ منزلیں طے کر چکا تھا اور ستاروں پر کمند ڈالنے کا خواب، حقیقت کا روپ دھار چکا تھا۔ انسان نے مریخ کو اپنی کالونی بنا لیا ہوا تھا۔ سائنسی طریقوں کی مدد سے مریخ کی آب و ہوا کو تبدیل کر کے انسانوں کی رہائش کے قابل بنایا گیا تھا اور اب انسان بغیر ماسک وغیرہ کے بالکل عام انداز سے مریخ پر رہائش پذیر ہو سکتے تھے۔ اس سے زمین پر انسانی آبادی کے بےپناہ دباؤ کو بھی ختم کرنے کی کوشش کو بھی تقویت ملی تھی۔
زمین سے کئی سو نوری سال کے فاصلے تک انسان کی بنائے ہوئے مصنوعی سیارے پہنچ چکے تھے اور ایک ایسا نظام وضع کیا جا چکا تھا کہ روبوٹس کی استعمال سے دوسرے سیاروں سے معدنیات اور دوسرے قدرتی وسائل کشید کر کے زمین اور مریخ پر موجود انسانی کالونیوں تک پہنچایا جاتا تھا۔ چاند بھی بطور خلائی سٹیشن استعمال ہو رہا تھا۔
یہ سب پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آگے بیان کی گئی کہانی کو سمجھنے میں قاری کو آسانی رہے اور عمومی طور پر اس قسم کی کہانیوں کو پڑھتے ہوئے قارئین کے ذہن میں جو سوالات اٹھتے ہیں، وہ نہ اٹھیں اور قارئین کی توجہ کہانی پر ہی مبذول رہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ اس کہانی میں مرکزی کردار یا ہیرو اور ولن تلاش کرنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ اس کہانی میں کردار نہیں ہیں بلکہ جیتے جاگتے انسان ہیں، جو کہ ہم سب کی طرح نفی اور اثبات کا مرکب ہیں اور کہانی کے آخر میں قاری کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کہانی بالکل حقیقت پر مبنی ہے۔ اب دوبارہ کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔
اسی ترقی کے دور میں یہ وقت آ گیا کہ زمین پر تمام ممالک کی طرف سے یہ مشترکہ فیصلہ کیا گیا کہ اب چونکہ زمین پر آبادی بےتحاشہ بڑھ چکی ہے اور مریخ کو بھی قابل رہائش بنا دیا گیا ہے لہذاٰ اب آبادی کا کچھ حصہ زمین سے مریخ کی طرف منتقل کیا جائے اور اس کام کے لیے جو اخراجات درکار ہوں گے وہ دنیا کے تمام مل کر فراہم کریں گے اور جس ملک کا جتنے فیصد حصہ اخراجات میں ہو گا، اس کی آبادی کے اتنے فیصد حصے کو مریخ پر منتقل کرنے کی اجازت ہو گی اور اس کے علاوہ اس ملک کو مریخ پر بھی اتنے ہی فیصد رقبے کا حقدار ٹھہرایا جائے گا۔ اس فیصلے کی ایک اہم شق یہ بھی تھی کہ اخراجات کی مد میں ادا کی گئی رقم میں ہر ملک اپنی معاشی حالت کے پیش نظر کمی بیشی کر سکتا ہے اور اسی تناسب سے مریخ پر اس کی آبادی اور رقبے میں بھی کمی بیشی ہو جائے گی۔
اب انسانی آبادی کے زمین سے مریخ پر بڑے پیمانے پر انتقال کی تیاری شروع ہو گئی اور حسب توقع دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک نے اس میں بھی اپنی واضح برتری برقرار رکھی۔ آبادی اور رقبے کے انتقال میں ایک شق یہ بھی رکھی گئی تھی کہ مریخ پر زمین کی طرح علیحدہ علیحدہ ممالک کی سرحدیں نہیں بنائی جائیں گی بلکہ ایک متحدہ حکومت منتقل شدہ آبادی کو گھر اور کاروبار کی جگہ فراہم کرے گی جو کہ رقبے اور آبادی کے تباسب کے عین مطابق ہو گی۔ یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا کہ مریخ پر بھی زمین کی طرح جنگیں نہ ہوں بلکہ مریخ بین الاقوامی انسانی برادری اور بھائی چارے کا مرکز بن جائے۔
تقریباً پانچ سالوں میں آبادی کے انتقال کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا۔ زمین سے مریخ پر منتقل ہونے والوں کو خصوصی بیج فراہم کیے گئے تھے جن میں ان افراد کی قومیت، رنگ، نسل اور زمین پر موجود خاندان کا مکمل ریکارڈ موجود تھا تاکہ کسی بھی ناخوشگوار حادثے کی صورت میں جلد از جلد زمین پر ان کے اقرباء کے ساتھ رابطہ قائم کیا جا سکے۔ مریخ کو مختلف شہروں میں تقسیم کیا گیا اور یہ کوشش کی گئی کہ قانون کے مطابق رہائشی اور کاروباری تقسیم کی جائے اور ہر شہر میں ہر رنگ، نسل اور قومیت کے لوگوں کو بسایا جائے۔
ایسے ہی ایک شہر نے مریخ پر بہت تیزی سے اپنا مقام بنایا اور کاروباری لحاظ سے مریخ کا صفِ اول کا شہر بن گیا۔ جیسا کہ تمام انسانی آبادیوں میں ہوتا ہے اس شہر میں بھی جرائم کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور پھر جیسا کہ ہوتا آیا ہے جرائم کی بیخ کنی کے لیے پولیس طرز کا ایک محکمہ قائم کیا گیا اور اس کے علاوہ نجی طور پر بھی سیکیورٹی گارڈ وغیرہ رکھنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔
اسی شہر کے ایک ریستوران میں ایک پارٹی جاری تھی۔ جام و مے کے دور چل رہے تھے اور اگر کائنات کی نہیں کم سے کم ہماری کہکشاں کی تمام نعمتیں موجود تھیں۔ رات گہری ہوتی گئی, مریخ کے آسمان پر فوبوس اور ڈائموس دمک رہے تھے اور اپنے ناموں کے برعکس یہ دونوں چاند خوف اور دہشت کی بجائے حسن اور خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے تھے۔ اسی حسین محفل میں اچانک دو لوگوں کے درمیان تکرار شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر میں ہی یہ واضح ہو گیا کہ یہ تکرار نسلی تفاخر پر ہو رہی ہے اور لڑنے والےزمین کے سعودی اور ایرانی شہری ہیں۔ انتظامیہ نے حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے پارٹی کو فوراً ختم کر دیا۔ یہ دونوں بھی پارٹی سے نکلے۔ پارکنگ میں پہنچے تو دونوں کے جذبات ایک بار پھر بے قابو ہو گئے، جھگڑا دوبارہ شروع ہو گیا اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ دونوں کے باڈی گارڈ بھی موقع پر پہنچ گئے اور وہ بھی اس جھگڑے میں شامل ہو گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ دونوں گارڈز نے اسلحہ نکالا اور ایک دوسرے پر فائرنگ کر دی۔ جدید تباہ کن ہتھیاروں کی فائرنگ سے دونوں گارڈز موقع پر ہلاک ہو گئے۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر سعودی اور ایرانی دونوں کو حراست میں لے لیا۔ گارڈز کے بیج چیک کیے گئے تو پتہ چلا کہ مرنے والے دونوں پاکستانی تھے۔
بدھ، 22 جولائی، 2015
بےموضوع کہانی
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
3 تبصرے:
خوبصورت تحریر - تلخ سچ
باڈی گارڈز والا طنز حاصل مطالعہ ہے
واه صاحب
سچائ اور تلخی کا عمده اور طنزیه امتزاج
ایک تبصرہ شائع کریں