وقت کی دہلیز پر قرنوں کا مسافر
دستک دینے سے گریزپا ہے یہ سوچ کر
سراسیمہ ہے، حیراں ہے
اور اس فکر میں سرگرداں ہے
وقت کی چوکھٹ کے در وا ہونے سے
اس کے نصیب میں کونسا لحظہ آئے گا
اس کی مسافت تمام ہو گی
یا پھر سے اذنِ سفر پائے گا
(وقت کی دہلیز سے آج تک
بھلا کوئی مطمئن لوٹا ہے؟
وقت کا گھر تو خود اک سفر ہے
وقت کی قید سے بھلا کس کو مفر ہے)
وقت کی کتاب میں ثبات تو موت ہے
سفر کا تسلسل ہی جیون کی جوت ہے
لحظوں کا، سالوں کا، صدیوں کا، ہزاریوں کا
سفر آخر تمام ہوتا ہے
وقت کی دہلیز پہ کھڑے ہر مسافر کا
ایک ہی انجام ہوتا ہے ـ
اتوار، 14 دسمبر، 2014
انجام
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں