وہ ہاسٹل میں اپنے کمرے کی بتیاں بجھا کر بیٹھا آواز بند کیے ایک انتہائی "رومانوی" فلم دیکھ رہا تھا۔ لیپ ٹاپ کی سکرین پر چلتے ہیجان خیز مناظر پر اس کی نظر چپکی ہوئی تھی، اس کی آنکھیں سرخ اور جذبات کی حدت سے اس کا چہرہ دہک رہا تھا۔ ایک ہاتھ ماؤس پر تھا اور دوسرا ہاتھ فلم کے ساتھ ساتھ تال میل میں حرکت میں تھا۔ منظر اپنے اختتام کے قریب تھا اور کلائمکس ہونے کو ہی تھا کہ اچانک دروازے پر ایک زوردار مسلسل دستک نے اسے چونکا دیا۔ اس نے گھبرا کر جلدی جلدی میں لیپ ٹاپ کا ڈھکن بند کیا، کپڑے درست کیے، چہرے اور آواز کو نارمل کرتے ہوئے پوچھا کہ کون ہے؟
بھائی، میں ہوں، جواب آیا۔ دستک دینے والا اس طلبہ تنظیم کا سیکرٹری تھا جس کا وہ صدر تھا۔
کیا ہوا؟ سب خیریت تو ہے؟ اتنی بوکھلاہٹ کس لیے ہے؟ اس نے پوچھا۔
بھائی، وہ کچھ لوگ مین لائبریری کے باہر دوسرے مذہب کا تہوار منا رہے ہیں؟ جواب ملا۔
کون ہیں یہ لوگ؟
اسی مذہب کے ہیں مگر ان کے ساتھ کچھ ہمارے مذہب کے لوگ بھی مل کر منا رہے ہیں۔
ہمممم۔ ایسا کرو لڑکوں کو اکٹھا کرو، ان کا علاج کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہمارے ملک میں فحاشی اور بےحیائی کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہیں طاقت سے روکنا پڑے گا۔
یہ کہہ کر اس نے دروازے کے پیچھے سے ہاکی اٹھائی اور تہوار منانے والوں کو روکنے کے لیے چل پڑا۔ وہ اپنی روایات کا تحفظ کرنا جانتا تھا۔