بدھ، 24 جولائی، 2024

کون آئے گا ہماری پکار پر؟



گھروں، مکانوں، پناہ گاہوں شاہراہوں یعنی قتل گاہوں
میں بہنے والے کشمیر و برما و غزہ کے لہو کی آنکھیں بھی جم کر پتھر ہو گئیں
اور کاگ انہیں کھا بھی چکے
مگر ہم اپنے ترانوں اور گانوں کی ہیجان آمیز دھنوں پر تھرکتے نازک بدنوں، بلوری جسموں اور مشکبار کاکلوں کے رقص دیکھنے میں منہمک رہے
اور رقصاں مورتوں کے قدموں کی تال پر اپنی بےسری آوازوں میں گنگناتے رہے
اور جن کے سموں سے چنگاریوں کو نکلنا تھا
اُن گھوڑوں کو ہم
میلوں اور ٹھیلوں میں ڈھولوں کی تھاپوں پر نچاتے رہے
لٹنے والے لٹتے رہے
مرنے والے مرتے رہے 
اور ہم کسی مسیحا کو بلاتے رہے
بھلا ہماری پکار پر کون آئے گا
اور کیوں آئے گا
ہماری اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور